جن زاد
قسط نمبر : 01
تحریر : ارشد احمد
Novel Shasheen Jinzaad by:Arshad Ahmed |
نوٹ :- اپ سب کی بے حد فرمائش پر یہ ناول جلدی شروع کردیا گیا ہے کمینٹ میں اپنی رائے اور فیڈبیک دینا مت بھولئے گا.
کئی ہزار برس قبل میری پیدائش پر میرا نام میرے ابائو اجداد میں سے ایک کے نام پر شاشین رکھا گیا تھا جو اپنے وقت کے جنوں کے سردار تھے..
میرے قبیلے کا نام سمانتن تھا اور میں سردار کا اکلوتا اور سرکش بیٹا تھا..
ہمارا قبیلہ کوہ ہندوکش کے دامن میں اباد تھا جہاں ہم جیسے اور کئی ذیلی قبیلے بھی موجود تھے..
ہماری قوم ہمیشہ سے سختی سے انسانوں کی قوم سے دور رہتی تھی اسی وجہ سے ابادی سے دور ہم قبائل کی شکل میں متحد تھے..
میرا باپ انتہائی ضدی اور سخت گیر شخص تھا جو اپنی طاقت کے نشے میں کسی کو کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا حتی کہ لاکھوں برس سے چلتے چلے انے والے اصولوں اور قوانین کو بھی..
ایک لمبے سفر کے دوران میرے باپ کو انسانوں کی قوم کی ایک لڑکی پسند اگئی جس کا نام کشمالہ تھا..
کشمالہ کا باپ ایک کاہن تھا اور اگ کی پوجا کرتا تھا..
میرے باپ نے اس عورت کے جسم پر زبردستی قبضہ کر لیا اور اسے اپنے ساتھ قبیلے لاکر شادی کے بندھن میں باندھ دیا..
ہماری قوم میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا ہماری نسل اگ سے پیدا کی گئی اور اگ ہی ہماری بقاء اور فناء کا ذریعہ ہے..مگر میرے باپ نے ناممکن کو ممکن کردیا..
میرے باپ نے کشمالہ سے شادی کرنے سے پہلے اس کے دماغ کو اپنے تسلط سے ازاد کردیا تھا مگر وہ اس کے جسم پر قابض رہا..
اس عورت نے میرے باپ کو قبول نہیں کیا اور بغاوت پر اتر ائی..
دوسری طرف سارا قبیلہ میرے باپ کی مخالفت پر اتر ایا مگر ہر جن اس کی لامحدود طاقت سے خوفزدہ تھا..
کشمالہ کا کاہن باپ جو اگ کا پجاری تھا اس نے میرے باپ اور قبیلے سے جنگ کی ٹھان لی اور ہمارے ابائو اجداد کی روحوں کو طلب کر کے ان سے مدد کا خواستگار ہوا..
کاہن کی ریاضت اور اسے حق پر سمجھتے ہوئے ہمارے ابائو اجداد کی روحوں نے اس کاہن کو میرے باپ کا مقابلہ کرنے کے لئے شکتیاں دان کردیں..
مگر اس سب میں بہت دیر ہوچکی تھی تب تک اور میرا باپ اپنی طاقت اور جادو کے زور سے اس عورت کو قابو کر کے اس سے شادی کر چکا تھا..
اخر وہ دن ان پہنچا جس دن کاہن اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہمارے قبیلے کے میدان میں ان پہنچا اور میرے باپ کو للکارا..
قبیلے کے بزرگ جان چکے تھے کہ کاہن حق پر ہے اور اس کے ساتھ ہمارے ابائو اجداد کی اشیرباد ہے اس لئے قبیلے کے زیادہ تر لوگوں نے اس لڑائی سے علیحدگی اختیار کر لی..
میرے باپ کے ساتھ صرف اس کے چند وفادار تھے اور دوسری طرف وہ کاہن اور اس کے چند ساتھی..
وہ لڑائی کئی دن چلتی رہی اور اخرکار میرے باپ اور اسکے ساتھیوں کی موت کے ساتھ ختم ہوئی..
کاہن بھی اپنے زیادہ تر ساتھیوں کو کھو چکا تھا اور سخت زخمی اور قریب المرگ تھا..
میرے باپ کی موت کے ساتھ ہی وہ عورت ازاد ہوگئی اور اس کاہن کے ساتھ واپس اگئی مگر کاہن اپنی زندگی ہار گیا..
کاہن کے بعد اس عورت کا اس دنیا میں کوئی نہیں تھا اس نے معبد کو چھوڑا اور دور ریگستان کے قریب جھونپڑی ڈال لی..اس سب میں اس کی ایک بچپن کی دوست اس کا ہر معاملے میں ساتھ دے رہی تھی مگر وہ دوست بھی اپنے شوہر اور خاندان سے خوفزدہ تھی اور چھپ کر سب کچھ کر رہی تھی..
اس عورت کے پیٹ میں میرے باپ کی نشانی پل رہی تھی جس سے وہ نفرت کرتی تھی اور چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی تھی..مگر ہونی ہوکر رہتی ہے..
وقت پورا ہونے پر وہ اپنی دوست کے ساتھ ریگستان میں گئی اور اپنی کوکھ خالی کرنے کی کوشش کی..
اس کی کوکھ میں کسی انسان کی نشانی ہوتی تو مشکل ناں ہوتی..
مگر وہ بچہ انسان کا نہیں جنوں کے سردار کا بیٹا تھا..
بچے کو پیدا کرتے ہوئے وہ عورت جان سے گزر گئی مگر اس کی کوکھ خالی ناں ہوئی..
اس کی سہیلی نے اسے اس ادھ جنے بچے کے ساتھ ریت میں دفن کردیا اور وہاں سے بھاگ نکلی..
شاید کہانی وہیں ختم ہوجاتی مگر اس عورت کی لاش گہرائی میں دفن نہیں تھی..
تیز طوفان نے ریت کو اپنی جگہ سے سرکا دیا اور اس کی لاش اور وہ ادھ جنا بچہ بھی ریت سے باہر نظر انے لگا..
فطرت نے بارش برسائی تو اس بچے نے انکھیں کھول دیں مگر ادھورے پیدا شدہ بچے کو اس ریگستان میں صرف موت مل سکتی تھی صرف پانی اس کی زندگی نہیں بچا سکتا تھا..
انسانی مخلوق کی دیکھنے کی حد چار سو سے سات سو نینو میٹر ہے یعنی انسان اپنی انکھ سے الیکٹرومیگنیٹک اسپیکٹرم کی وہی روشنی دیکھ سکتے جو چار سو سے سات سو نینو میٹر کے درمیان ہوگی مگر دنیا میں اس سے ہٹ کر بھی بہت سی روشنیاں موجود ہیں جیسے ایکسرے ویژن، الٹرا وائلٹ, گاما ریز وغیری..
دنیا میں بہت سے جانور ایسے ہیں جن کا اسپیکٹرم انسانوں سے مختلف ہے اس لئے وہ ان چیزوں کو بھی دیکھ لیتے ہیں جنھیں انسان نہیں دیکھ سکتے..
ہماری قوم اگ سے بنی ہے اور ہمارے اسپیکٹرم کی رینج بے انتہا زیادہ ہونے کی وجہ سے انسان یا کوئی بھی جاندار ہمیں دیکھ نہیں سکتا اس لئے ہمارا نام بھی جن ہے یعنی نظر ناں انے والی مخلوق..
مگر دنیا میں اور اس کائنات میں بہت کچھ ایسا بھی ہے جو انوکھا اور عجیب ہے جس کی کوئی توجیح ممکن نہیں..
ایسے ہی انسانوں کی قوم سے ایک بابا خامن بھی تھے جو حیرت انگیز صلاحیتوں کے مالک تھے..
بابا خامن کو دور ریت میں کسی کا جسم نظر ایا تو وہ اس جگہ پہنچے جہاں وہ اس عورت کی لاش موجود تھی..
بابا خامن نے اس عورت کے ساتھ ہی اس بچے کو پایا جسے عام انکھ سے دیکھنا بھی کسی انسان کے لئے ممکن نہیں تھا...
انھوں نے اس بچے کو اس کی ماں کو کوکھ سے نکالا اور نئی زندگی دی..
بابا خامن نے اپنے علم سے اس بچے کے بارے میں جانا اور اس کو نام دیا "شاشین" جو ناں انسان تھا اور ناں ہی جن بلکہ وہ ان دونوں کے ملاپ سے بنا تھا..جن زاد..."شاشین"..
جن زاد
قسط نمبر : 02
تحریر : ارشد احمد
بابا خامن نے بن ماں باپ بچے کو پالا اور تربیت کی..
سوائے بابا خامن کے میں کسی کو نظر نہیں اتا تھا..
بڑا ہوا تو انھوں بے مجھے اپنی قوتوں کا استعمال سکھایا جو مجھے اپنے باپ سے وراثت میں ملی تھیں..
میں روپ بدل سکتا تھا, کسی کی بھی شکل اختیار کرسکتا تھا, انسانی شکل میں اسکتا تھا, کسی کے بھی دل, جسم, جسم پر قبضہ کرسکتا تھا, ہوا میں اڑ سکتا تھا ان کے علاوہ بھی میں بے شمار طاقتوں کا مالک تھا..
بابا خامن نے مجھے میری قبیلے کے بارے میں بتایا میرا باپ, میری ماں, میرا خاندان...
میں انسانی روپ میں ان کا بیٹا بن کر ان کے ساتھ رہتا تھا..
میرے ماضی کا ہر ورق انھوں نے میرے سامنے کھول دیا..
میں جوان ہوا تو بابا خامن دنیا سے گزر گئے اور میں بھری دنیا میں اکیلا رہ گیا..
اپنی زندگی میں بابا خامن نے بہت کوشش کی کہ میں اپنے قبیلے میں اپنے لوگوں میں چلا جائوں..
مگر میرا وہاں تھا کون جس کے لئے میں وہاں جاتا..
خامن بابا کے گزرنے کے بعد میرا دل ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا تھا...
انھوں نے زندگی بھر شادی نہیں کی تھی اور مجھے سگے بیٹوں سے زیادہ محبت اور شفقت دی تھی...
مجھے انسانوں کی سب سے ناپسندیدہ بات یہی لگتی تھی کہ وہ پچاس سو سال بعد مرجاتے تھے...
میرے بچپن کے دوست...
بابا خامن کے ملنے جلنے والے..
کئی لوگ جن سے مجھے انسیت ہوگئی تھی اخرکار وہ بھی مرگئے...
یہ فرعونوں کا دور تھا اور اب تک میرے سامنے کئی فرعون بادشاہت کی گدی پر بیٹھے اور چند برس گزار کر اخرکار فنا ہوگئے...
بابا کے بعد میں مستقل انسانی شکل میں رہتا تھا تاکہ لوگوں میں گھل مل سکوں..
مگر ہر پچاس سو سال بعد مجھے پھر اپنی شکل بدلنی پڑتی تھی تاکہ ان انسانوں کے سوالوں سے بچ سکوں جو میری زندگی کا حصہ بن جاتے تھے...
اس دوران میں نے کئی لڑکیوں سے عشق لڑایا..کئی لڑکیوں کے دل و دماغ پر قبضہ جما کر ان سے اپنی ہوس پوری کی..
مگر میرا حقیقی قد نو فٹ سے بھی زیادہ تھا اور میرا جسم اور سارے اعضاء بھی اسی حساب سے تھے..
میں انسانی شکل میں بھی رہتا تو بھی کوئی لڑکی میری جسمانی قوت، طاقت اور سائز کو برداشت نہیں کرپاتی تھی اور چند بار میں ہی مرجاتی تھی..
اخرکار میں انسانوں سے اور ان کے حسین جسموں سے بیزار ہوگیا اور دنیا کی سیر کو نکل کھڑا ہوا...
نیند کی میرے لئے کوئی حیثیت نہیں تھی اور میں اپنی مرضی سے ہفتوں مہینوں سوتا رہتا تھا جاگتا تو مہینوں سالوں جاگتا رہتا تھا..
زمانے گزرتے رہے قبیلے شہر بنے، شہروں نے ترقی کی منزلیں طے کرنی شروع کیں..
وقت گزرتا رہا دنیا میں نت نئی ایجادات ہوتی رہیں اور انسانی مخلوق ترقی کی نئی نئی بلندیاں طے کرتی رہی...
ایک دن میں ملکوں ملکوں گھومتا ہوا ملک نیپال پہنچا..
پہاڑوں اور جنگلوں میں گھرا یہ ملک مجھے بہت پسند ایا اور میں نے یہاں پہاڑوں میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا...
میں نے رہنے کے لئے ایک غار چنا اور اپنی جناتی طاقتوں کی مدد سے اسے تراش خراش کر رہنے کے قابل بنالیا..
میرا دوسرا ٹھکانہ موجودہ کھٹمنڈو کا شہر تھا جہاں ایک وسیع و عریض گھر میری ملکیت تھا...
چیزیں خریدنے کے لئے انسان جو کاغذ کے ٹکڑے استعمال کرتے تھے وہ میں نے ڈھیر سارے جمع کئے ہوئے تھے...کیونکہ نادیدہ رہ کر کہیں پر بھی نقب لگانا میرے لئے بہت اسان تھا..
ایک دن میں شہر میں نکلا ہوا تھا کہ مجھے راستے میں ایک انتہائی حسین و جمیل صورت نظر ائی..
بڑی بڑی گہری جھیل سی انکھیں..
گلاب سے ہونٹ...
ہوا میں لہراتیں دراز زلفیں..
متناسب قد، بھرا بھرا جسم اور اوپری جسم کی دل للچا دینے والی اٹھان..
میں نے اپنے علم کے زور سے جان لیا کہ اس کا نام سحر تھا اور وہ کسی بدھ بھشکو کی بیٹی تھی جو وہیں کے کسی ٹیمپل میں اپنے باپ کے ساتھ رہتی تھی..
اسے دیکھ کر میرے اندر کا حیوان جاگنے لگا..
میں نے رات ہونے کا انتظار کیا اور اس ٹیمپل میں پہنچ کر اڑتا ہوا اس کی کٹیا میں داخل ہوگیا..
وہ بستر پر دراز تھی اور اس کا خوابیدہ حسن میرے جذبات میں طلاطم برپا کر رہا تھا...
اس کے برابر میں کچھ دور موجود دوسرا بستر خالی تھا جو شاید اس کے باپ کا تھا...
میں اس کے قریب پہنچا اور جادوئی الفاظ ادا کر کے اس کے جسم میں داخل ہوکر اس پر مکمل قبضہ کرلیا...
میرا ارادہ اسے اپنے گھر پر لے جانے کا تھا تاکہ اسے مستقل اپنے پاس رکھ سکوں..
کسی انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد ہماری طاقتیں محدود ہوجاتی ہیں...
کیونکہ ہمارا وجود سایہ بن کر انسانی جسم کا حصہ بنتا ہے...
اس لئے اس انسانی جسم کے ساتھ اڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا یا اس جسم میں رہتے ہوئے بہت سی دوسری طاقتوں کو استعمال کرنا ممکن نہیں رہتا...
میں نے اسے بستر سے اٹھایا اور کٹیا سے باہر جانے کے لئے قدم بڑھائے...
مگر اسی وقت ایک بوڑھا اندر داخل ہوا جس نے گیروئے رنگ کا بدھ بھشکئوں کا مخصوص لباس پہن رکھا تھا اور اس کی انکھیں شعلے اگل رہی تھیں...
جن زاد
قسط نمبر : 03
تحریر : ارشد احمد
بدکردار..بدمعاش...چھوڑ دے اس کا جسم اور چلا جا یہاں سے..بوڑھے بھشکو نے شعلے اگلتی انکھوں سے چیختے ہوئے کہا..
میں اس لہجے کو سہنے کا عادی نہیں تھا کجا کوئی انسان مجھے گالیاں دے..
میں تن کر بھشکو کے سامنے کھڑا ہوگیا..
تجھ میں ہمت ہے تو چھڑوا لے اس کا جسم بڈھے..
میں تجھ سے لڑنا نہیں چاہتا..میرے تیور دیکھ کر بھشکو کی اواز اور لہجہ دھیما ہوگیا..
تو اسے چھوڑ دے اور یہاں سے چلا جا بس..
ناں میں اسے چھوڑ رہا ہوں اور ناں تم مجھے میری مرضی کے بناء کچھ کرنے پر مجبور کرسکتے ہو..
میری بات سن کر بوڑھے نے انکھیں بند کیں اور کچھ پڑھنا شروع کردیا..
میں مسکراتی نظروں سے اسے دیکھتا رہا..
مگر اس بھشکو کو کمزور سمجھنا میری زندگی کی بہت بڑی غلطی تھی..
چند لمحے گزرے تھے کہ مجھے یوں محسوس ہوا میرا سانس بند ہورہا ہے اور جسم جیسے ہزاروں من بوجھ تلے دبتا جارہا ہے..
میں نے اپنی طاقتوں کو استعمال کرنا چاہا مگر ناکام رہا..
میں گھبرا کر سحر کے بدن سے باہر نکل ایا اور زمین پر گر گیا..
سحر میرے جسم کے چھوڑتے ہی ہوش میں اگئی تھی اور اب حیرانگی سے مجھے اور اس بھشکو کو دیکھ رہی تھی جو یقینا اس کا باپ تھا..
میں نے دوبارہ کوشش کی سنبھلنے کی اور اپنی طاقتیں استعمال کرنے کی مگر کامیاب نہیں ہوا اور میرا ذہن اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا..
جانے کتنے گھنٹوں بعد میں ہوش میں ایا تو کھٹمنڈو کے ایک فٹ پاتھ پر پھٹے پرانے کپڑوں میں پڑا ہوا تھا اور لوگ میرے سامنے بھیک میں سکے پھینکتے ہوئے جارہے تھے..
میں اٹھ کر بیٹھ گیا..
یہ دن کا وقت تھا..
میں گزشتہ رات کے واقعات یاد کرنے لگا..سحر کے پاس جانا اس کے جسم پر قبضہ کرنا اور اسکے بعد اس بھشکو کا مجھے سحر کے جسم سے نکال دینا..
غصے سے میرا خون کنپٹیوں میں ٹھوکریں مارنے لگا..
میں نے نادیدہ ہونے کی کوشش کی مگر مجھے زندگی کا سب سے بڑا جھٹکا لگا...
میں دوسروں کی نظروں سے اوجھل ہونے پر قادر نہیں تھا..
میں نے اڑنے کی کوشش کی مگر اس میں بھی ناکام رہا..
ایک ایک کر کے میں نے اپنی ساری طاقتیں ازما لیں مگر میری کسی طاقت کسی جادو نے میرا ساتھ نہیں دیا..
میرا جیسے دل بیٹھنے لگا..
یہ کیا ہوگیا تھا..
اس بھشکو نے میرے ساری طاقتیں چھین لی تھیں اور مجھے ایک عام انسان کے روپ میں سڑکوں پر بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ دیا تھا..
میں اپنی جگہ سے اٹھا اور ادھر ادھر بھٹکتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل پڑا جہاں نوکرچاکر سے لے کر روپے پیسوں تک دنیا کی ہر اسائش موجود تھی..
میں دروازے پر پہنچا تو مجھے ایک اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا..
دربانوں نے مجھے دھکے دے کر وہاں سے بھگا دیا..
میں چیختا چلاتا انھیں اس گھر کی ملکیت کا یقین دلاتا رہا مگر انھوں نے میری ایک نہیں سنی..
یہ ماننے اور یقین کرنے والی بات نہیں تھی..
میرا حلیہ اور کپڑے لاکھ برے اور خراب ہوتے مگر نوکر اپنے مالک کو پہچاننے سے انکار کیسے کرسکتے ہیں..
یہ گتھی بھی جلد ہی سلجھ گئی..
بازار سے گزرتے ہوئے دکان کے شیشے پر میری نظر پڑی تو مجھے اندازہ ہوا یہ میرا وہ روپ نہیں تھا جو سحر کے جسم میں سمانے سے پہلے میں نے اختیار کیا تھا..
اس کی جگہ ایک خوبصورت مگر مفلوک الحال اور کمزور چہرہ اور جسم میرے سامنے تھا..
وہ بھشکو بہت شکتی شالی تھا اس نے ناں صرف میری ساری طاقتیں چھین لی تھیں بلکہ میرا چہرہ میرا جسم بھی بدل دیا تھا..
اب میں ایک عام انسان تھا..
اور انسانوں کے روپ میں سب انسانی ضروریات میری زندگی کا حصہ بن گئی تھیں..
بھوک سے میری انتوں میں بل پڑ رہے تھے مگر میرے پاس روپے نہیں تھے کہ میں کچھ خرید کر کھا سکوں اپنا حلیہ بہتر کرسکوں...
اس بھشکو نے مجھ سے بھیانک انتقام لیا تھا اور مجھے در در کی ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ دیا تھا..
میں جتنا سوچتا اتنا ہی میرا خون کھولتا مگر میرے اختیار میں کچھ نہیں تھا..
بھوک سے مجبور ہوکر میں فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا کہ کوئی مجھے بھیک دے تو پیٹ کا جہنم بھر سکوں..
بھوک اور کمزوری سے میرا دماغ مائوف ہورہا تھا..
دوپہر ہورہی تھی جب چند سکے میرے پاس جمع ہوئے..
ابھی میں وہاں سے اٹھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ ایک شخص میرے پاس اکر رکا..
حلیے سے وہ کوئی شریف ادمی نہیں لگ رہا تھا..
کام دھندا کیوں نہیں کرتا کوئی..
شرم نہیں اتی بھیک مانگتے ہوئے..اس ادمی نے مجھے شرمندہ کیا..
مجھے شدید غصہ ایا مگر میں برداشت کر گیا..
کام کوئی مل جائے تو ضرور کروں گا بھائی..میں نے غصے کو دبا کر لجاحت سے کہا..
چل پھر اٹھ..میرے پیچھے اجا..
وہ شخص مجھے سڑک کنارے بنے ہوٹل میں لے گیا اور کھانا کھلایا, ڈھنگ کے کپڑے دلوائے جو میں نے ایک حمام میں نہا کر تبدیل کئے..اسکے بعد وہ موٹر میں بٹھا کر شہر سے باہر ایک مکان میں لے ایا..
مکان ابادی سے بہت ہٹ کر بنا ہوا تھا اور اس مکان میں بس دو جوان مرد عورت تھے شاید میاں بیوی...
اس نےمجھے ان دونوں کے حوالے کیا اور میرا خیال رکھنے کا کہ کر وہاں سے چلا گیا..
جاتے جاتے اس شخص نے مرد کو کچھ روپے بھی نکال کر دئے تھے اور شاید کچھ ہدایات بھی مگر دور ہونے کی وجہ سے میں ان کی باتیں سن نہیں پایا..
مرد کا نام نرمل تھا اور عورت کا بھاتی..نرمل اس شخص کے جانے کے بعد کچھ ضروری سامان لینے کے لئے شہر کی طرف چلا گیا..
عجیب شخص تھا اپنی حسین و جمیل بیوی کو میرے ساتھ جو بالکل اجنبی تھا اکیلا چھوڑ کر چلا گیا تھا مجھے واقعی حیرانگی ہوئی..
بھاتی نے کھلے گلے کی ململ کی قمیض پہنی ہوئی تھی جو اس کے گھٹنوں سے نیچے تک ارہی تھی مگر قمیض کے نیچے شلوار کے بجائے کچھ اور پہنا تھا جو مختصر تھا مگر میں اندازہ نہیں کرپایا..
چلتے ہوئے اس کے نمکین بدن کے جلوے میری دھڑکنوں کو اتھل پتھل کررہے تھے..
بھاتی نے میری محویت نوٹ کرلی..
کیا دیکھ رہا ہے ندیدوں کی طرح..عورت نہیں دیکھی پہلے کبھی..
ہزاروں دیکھی ہے مگر تیرے جیسا نمک پارہ پہلی بار دیکھ رہا ہوں..
کٹاری سے پیٹ پھاڑ دوں گی تیرا کچھ الٹا سیدھا سوچا تو بھاتی نے قمیض ذرا اوپر کی...
اس کی ران کے ساتھ سچ میں ایک چمڑے کا کور بندھا ہوا تھا جس میں کٹاری تھی..
میں نے بھاتی کی انکھوں میں دیکھا..جہاں مسکراہٹ تھی..
تجھے کٹار کی کیا ضرورت ہے بھاتی...
تیری تو نظروں کے تیر ہی کافی ہیں کسی کو بھی گھائل کرنے کے لئے اس پر تیری بجلی جسی مسکراہٹ..
شکل دیکھی ہے تونے اپنی..بھاتی نے نخرہ دکھایا..
عورت کو مرد کی شکل سے کیا لینا دینا..میں نے مسکراتے ہوئے کہا..
میری بات سن کر بھاتی تیر کی طرح میری طرف ائی کٹار اس کے ہاتھ میں اچکی تھی میرے کچھ سوچنے یا کرنے سے پہلے اس کا تیز دھار پھل میری گردن پر ٹک گیا..
جن زاد
قسط نمبر : 04
تحریر : ارشد احمد
بھاتی میرے سامنے سینہ تانے کٹار میری گردن پر رکھے کھڑی تھی..
مجھ سے گندی گندی باتیں مت کر..
مرد ہرجائی ہوتے ہیں..
انکھوں میں سپنے جگا کر جسم کو مسلتے ہیں اور چھوڑ جاتے ہیں..
تونے کچھ الٹا سیدھا سوچا ناں تو اسی سے گردن گاٹ دوں گی..
ابے کسی جگہ تو ٹک جائو..
کبھی کٹاری سے پیٹ پھاڑتی ہو کبھی گردن کاٹنے کی دھمکی دیتی ہو..
پہلے فیصلہ کرلو پیٹ پھاڑنا ہے یا گردن کاٹنی ہے..میں نے بھاتی کا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کی مگر اس کا ہاتھ اپنی جگہ جمارہا..
تیرے ساتھ کسی نے دھوکا کیا تو کیا تو اس کا بدلہ ساری دنیا کے مردوں کا پیٹ پھاڑ کر لے گی..
نرمل مرد نہیں ہے کیا وہ تیرے ساتھ یہیں ہوتا ہے اب تک اس کا پیٹ کیوں سلامت ہے شوہر ہے اس لئے..
نہیں..بھاتی کے چہرے پر مسکراہٹ اگئی..وہ کیچوا ہے مرا ہوا بس میری حفاظت کے لئے چھوڑا ہوا ہے داوا نے مرد نہیں ہے میرا وہ..
اور میں صرف اسی مرد کا پیٹ پھاڑوں گی میری طرف میلی انکھ سے دیکھے گا..
داوا کون..میں نے حیرانگی سے پوچھا..
ارے..تو داوا کو نہیں جانتا..جو تجھے یہاں چھوڑ کرگیا ہے..
نہیں میں اسے نہیں جانتا..
میں تو فٹ پاتھ پر بھیک مانگ رہا تھا مجھے وہاں سے اٹھا کر یہاں لے ایا ہے وہ میں تو اج سے پہلے جانتا بھی نہیں تھا اسے...
بھاتی کے چہرے پر حیرانگی کے تاثرات نظر ائے اس نےکٹاری ہٹا لی اور قمیض اٹھا کر واپس چمڑے کے کیس میں اڑس لی..
تو شلوار کیوں نہیں پہنتی..پہلے للچاتی ہے جلوے دکھا کر پھر کوئی لالچ کرے تو پیٹ پھاڑنے کو تل جاتی ہے..
ہاہاہا..بھاتی کھلکھلا کر ہنسی..
میرا بس چلے تو یہ بھی ناں پہنوں جو پہنا ہوا ہے..بھاتی کھلکھلائی
تاکہ مرد جھپٹیں اور تو ان کے پیٹ پھاڑ سکے..میں نے جواب دیا..
تم مرد لوگ اتنے ندیدے کیوں ہوتے ہو میری سمجھ نہیں اتا..
عورت کچھ بھی کرے کچھ پہنے یا اتارے اسے لوٹ کا مال کیوں سمجھنے لگ جاتے ہو..
تیرا اسکرو ڈھیلا ہے کوئی..
حلوہ پلیٹ میں رکھ کر تو کسی کے سامنے پیش کرے گی اور توقع کرے گی کہ اگلا کھائے بھی ناں پاگل ہے کیا ری تو..
یہی تو کہ رہی ہوں عورت جیتی جاگتی سانس لیتی ایک وجود ہے کوئی حلوہ نہیں جسے جب چاہے جو چاہے کھا لے اٹھا کر..
ہاں تو حلوہ جب تو محلے میں بانٹنے رکھے گی تو مفت کا مال سمجھ کر سب کھائیں گے ہی...
یہ محلہ نہیں میرا گھر ہے سمجھا تو..میں محلے میں ننگی ہوکر نہیں جاتی..
چلی جا کیا فرق پڑتا ہے تجھے تیری زندگی کا مقصد تو مردوں کی گردنیں کاٹنا اور پیٹ پھاڑنا ہے..
بلاوجہ تو کوئی نہیں کٹوائے گا گردن اپنی نا پیٹ پھڑوانےائے گا ناں..
تیری زبان قینچی کی طرح چلتی ہے..کچھ کھائے گا تو بتا..بھاتی نے موضوع بدل دیا..
جو کھانا چاہ رہا ہوں وہ تو کھانے نہیں دے گی..
میری بات سن کر بھاتی کا ہاتھ دوبارہ کٹاری پر جم گیا مگر چہرے پر مسکان تھی..
ہاں ہاں مجھے پتہ ہے میلی نظر سے دیکھنے والے کا تو پیٹ پھاڑ دیتی ہے..
تو داوا کے ہاتھ کیسےچڑھ گیا..
بتایا تو ہے بھیک مانگ رہا تھا وہ اٹھا کر مجھے یہاں لے ایا..
بکواس کر رہا ہے تو..بھاتی کی انکھوں میں بے یقینی تھی..
داوا جیسا ادمی کسی بھکاری کے لئے اپنا وقت ضائع نہیں کرتا..
اور اتنے سمارٹ فقیر بھی اب انے لگے ہیں مارکیٹ میں مجھے اج لتہ لگا بھاتی مسکرائی..
چل برف تو پگھلی..تجھے سمارٹ تو لگا کم سے کم میں..باقی پیٹ والی بات یاد ہے مجھے نہیں پھڑوانا اپنا پیٹ بے فکر رہ تو..مگر مجھے داوا کا بتا کون ہے کیا کرتا ہے کہاں رہتا ہے اور تیرا اس سے کیا تعلق ہے..
سارے کالے دھندے کرتا ہے داوا لڑکی, شراب, نشہ, اسمگلنگ...
جس کام میں اسے پیسہ ملے..
تو داوا کا مجھ سے کیا کام..مجھے حیرانگی ہوئی..
تیرے گردے بیچنے ہونگے اس نے..بھاتی کھلکھلا کر ہنسی..
کیا بکواس ہے اس بات کا کیا مطلب..
مطلب جانی اسلحہ, شراب, نشہ پرانے دھندے ہوگئے اب گردے, پھیپھڑے, دل, جگر, انکھیں سب بکتی ہیں اس دھندے میں بہت پیسہ ہے..
یہ کیسے ہوسکتا ہے مجھے یقین نہیں ارہا تھا بھاتی کی بات کا..
داوا میرا بڑا لحاظ کرتا ہے پر اسے پتہ چلے گا ناں تو وہ میرا پیٹ پھاڑ دے گا..
نہیں بھاتی مذاق اپنی جگہ مگر میرا وعدہ ہے تیرا نام کسی معاملے میں کبھی میری زبان پر نہیں ائے گا..
مردوں پر یقین کرنا چھوڑ دیا میں نے پر پھر بھی سن..
یہاں غربت بہت زیادہ ہے اور صرف یہاں نہیں جن ملکوں میں بھی غربت زیادہ ہے وہاں یہ دھندا عروج پر ہے..
دنیا میں بہت سے امیر لوگ ہیں کسی کو انکھوں کا مسئلہ کسی کو گردوں کا کسی کو دل کا کسی کو جگر کا..
وہ لوگ منہ مانگی قیمت دے کر یہ اعضاء خریدتے ہیں..
داوا جیسے لوگ ایسے لڑکے لڑکیاں پھانستے ہیں...
جن کا اگے پیچھے کوی نہیں ہوتا یا کسی کو محبت کا لالچ دے کر جال میں پھنسایا جاتا ہے...
کسی کو نوکری کا مطلب جس کی جو ضرورت ہو..
پھر کسی ناں کسی بہانے سے میڈیکل یا کوئی اور ڈرامہ کر کے یہ لوگ اس کے خون اور دیگر چیزوں کا ٹیسٹ کر لیتے ہیں اور سیمپل لے لیتے ہیں..
جب کوئی ڈیمانڈ اتی ہے تو یہ بیہوش کر کے اس کے اندر سے وہ چیز نکال لیتے ہیں جس کی ضرورت ہو..
مگر ایک چیز نکال کر باقی مرد یا عورت کو بھی ضائع نہیں کرتے یہ کوشش کرتے ہیں اس کی ہر چیز کام میں اجائے..
میں سات سالوں سے داوا کے ساتھ ہوں وہ یہاں اکثر کسی لڑکے یا لڑکی کو چھوڑ جاتا ہے اور چند دن بعد لے جاتا ہے اس کے بعد وہ کبھی نظر نہیں اتے..
تجھے یہ سب کیسے پتہ چلا میں نے حیرانگی سے پوچھا..
داوا کی سب سے بڑی برائی دارو ہے..
شراب پی کر وہ اپنی ماں بہن کو بھی نہیں پہچانتا..
ایسے ہی موقعوں پر وہ اپنے اندر کا غبار نکالتا ہے..
اور تو یہ سب کچھ جان کر بھی اس کے ساتھ ہے..
ہاں..تو کدھر جائوں پھر..کم سے کم عزت سے تو رہ رہی ہوں یہاں..
اکیلی عورت کو چیر پھاڑ کھانے والے بھیڑئیے بہت ہیں..
تو تیرا خیال ہے وہ میرے بھی گردے پھیپھڑے نکال کر بیچے گا اگر تونے میرا پیٹ پھاڑ کر ناں نکالے تو میں نے مسکرا کر کہا..
نہیں ہوسکتا ہے وہ تجھے لڑکیاں اسمگل کرنے کے لئے استعمال کرے..
کیا...لڑکیاں بھی اسمگل ہوتی ہیں..
میں نے تو اسلحہ, نشہ, شراب, ہیرے وغیرہ اسمگل ہونے کا سنا ہے بس..مجھے بھاتی کی باتوں سے حقیقت میں حیرانگی ہورہی تھی..
ہاں تو ایک دم چکنا اور سمارٹ ہے کسی بھی لڑکی کو الو بنا کر محبت کا ناٹک کروا کے گھر سے بھگایا ہنی مون کے لئے دبئی, قطر یا کہیں گھمانے لے گیا وہاں اس لڑکی کی تصویروں پر پہلے سے بکنگ ہوئی ہوتی ہے اور وہاں سے وہ کسی شیخ کے حرم یا کسی امیرزادے کے محل کے قیدی بن کر باقی زندگی وہیں گزارتی ہے..
کیا تو سب انے والوں کو یہ کہانیاں سناتی ہے یہ ساری باتیں بتاتی ہے میں نے بھاتی سے پوچھا..
نہیں..بھاتی نے میری انکھوں میں جھانکا..تجھ پر میرا دل اگیا ہے..
میں حیرت سے بھاتی کو دیکھتا رہ گیا..
جن زاد
قسط نمبر : 05
تحریر : ارشد احمد
میں تھوڑی دیر پہلے تجھ پر رال ٹپکا رہا تھا تو تو میرا پیٹ پھاڑنے پر تلی ہوئی تھی..
اب کہ رہی ہےتجھ پر اگیا ہے...تیرا دماغ کا اسکرو واقعی ڈھیلا ہے..
ہاں تو شرم نہیں اتی تجھے پرائی عورتوں پر گندی نظر ڈالتے ہوئے..
ہر عورت کو تم لوٹ کا مال کیوں سمجھتے ہو اور صرف جسم سے مطلب کیوں رکھتے ہو..
تو تیرا مطلب ہے پرائی عورتوں کو میں بہن بنا کر ان سے راکھیاں بندھواتا پھروں..
ہاں ہونا تو ایسا ہی چاہئے..بھاتی مسکرائی..
دل انے کا مطلب یہ نہیں میرا کہ تجھے میں اپنے شریر سے کھیلنے دوں گی..
شریر کیا بھاتی کی ہر سانس تیری ہوگی اگر تو میرا مرد بننے پر راضی ہوجائے..بھاتی نے میری انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا..
اچھا..اور داوا کا کیا..میں نے پوچھا..
میں اسے منا لوں گی اسکی فکر ناں کر تو...بھاتی نے جواب دیا..
تو نرمل کو تونے اپنا مرد کیوں نہیں بنایا..
بتایا تو ہے کینچوا ہے وہ بس حکم کا غلام وہ تو مرد بھی نہیں ہے..بھاتی نے برا سا منہ بنایا..
یعنی تونے اس کی مردانگی بھی چیک کی ہے..واہ..
بکواس ناں کر..اسے باہر سے ہی دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کتنا مرد ہے وہ..اسے چھوڑ تو اپنی بات کر..
اپنی کیا بات کروں..
تو مجھے جانتی تک نہیں اج سے پہلے ملی نہیں اور تونے اتنا بڑا فیصلہ کیسے کرلیا پھر..میں نے سوال کیا..
میں تھک گئی ہوں..باقی زندگی سکون سےگزارنا چاہتی ہوں اپنے مرد کے سائےمیں سارے مسئلوں اور پریشانیوں سے دور..تو ساتھ دے گا میرا...بھاتی نے پرامید نظروں سے مجھے دیکھا..
دیکھ بھاتی..جو میں تجھے بتائوں گا تو اس پر یقین نہیں کرے گی..
تو بول میں کرلوں گی یقین.بھاتی نے میری بات کاٹی..
اچھا تو سن پھر...میری عمر کئی ہزار برس ہے اور میں انسان نہیں جن ہوں ایک بھشکو نے میری شکتیاں مجھ سے چھین کر بھکاری بنا دیا میں فٹ پاتھ پر پڑا..
ہاہاہاہاہا..میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی بھاتی کھلکھلا کر ہنسنا شروع ہوگئی اور پیٹ پکڑ کر ہنستی چلی گئی..
مجھے لگ رہا ہے میرا نہیں تیرے دماغ کا اسکرو ڈھیلا ہے..
ابھی تک تو اچھی خاصی ہوش و حواس میں باتیں کر رہا تھا ایک دم سے سٹک گیا ہے اب تو..
میں نے پہلے ہی کہا تھا تو یقین نہیں کرے گی..
ارے..تو یہ کیا یقین کرنے والی بات ہے کہ تو جن ہے اور تیری عمر ہزاروں برس ہے اور داوا تجھے کان سے پکڑ کر یہاں لے ایا ہے پاگل بنانے کو تجھے میں ہی ملی ہوں کیا..
تونے نہیں دینا میرا ساتھ تو تیری مرضی یہ کوئی زور زبردستی کا سودا تھوڑی ہوتا ہے..مگر کم سے کم مجھے الو تو مت بنا..
نہیں بھاتی میں تجھے بیوقوف نہیں بنا رہا ہوں مجھے انکار کرنا ہوگا میں ڈائریکٹ کردوں گا اس کے لئے مجھے کسی جواز یا کہانی گھڑنے کی ضرورت نہیں ہے..
میری زندگی کا مقصد اس بھشکو کو ڈھونڈنا اور اپنی شکتیاں واپس لینا ہے..پر تو یقین نہیں کرے گی اس لئے چھوڑ دے اس بات کو..
پاگل ہے کیا تو..میں کیا کوئی بھی یقین نہیں کرے گا تیری پاگل پن کی باتوں پر..بھاتی نے برا سا منہ بنایا..
اچھا چھوڑ اس بات کو یہ بتا کہ داوا کو یہ ڈر نہیں ہوتا کہ جس مرد یا عورت کو یہاں چھوڑے گا بھاگ بھی سکتا ہے وہ..میں نے پوچھا..
کیوں بھاگے گا..داوا جسے بھی یہاں لاتا ہے کوئی ناں کوئی خواب دکھا کر لاتا ہے یہاں انے والا ہر شخص مرد ہو یا عورت اپنی مرضی سے اتے ہیں..بھاتی نے جواب دیا..
ابھی ہم بات کر رہے تھے کہ باہر گاڑی رکنے کی اواز ائی تو بھاتی چونک گئی..
یہ کیسے واپس اگیا اتنی جلدی..اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا..
کون..میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا..
داوا اور کون اسکتا ہے یہاں موٹرگاڑی میں..
اسی وقت داوا اندر داخل ہوا اس کے ہاتھ میں کاغذ کا شاپر تھا جو اس نے اندر اکر بھاتی کی طرف بڑھا دیا اور ایک طرف پڑی کرسی پر بیٹھ گیا..
اس بار بہت جلدی اگیا رے تو..اور یہ شراب بھی اٹھا لایا ہے مطلب رات یہیں رکے گا تو..بھاتی نے داوا سے سوال کیا...
نہیں بس اسے سنبھال دے تو اور اکر ادھر بیٹھ ضروری بات کرنی ہے..
تیرا نام کیا ہے رے..داوا بھاتی کو ہدایت دے کر میری طرف متوجہ ہوا..
بدری ناتھ..میں نے اپنے دماغ میں انے والا پہلا نام دوہرا دیا..
بیٹھ ادھر اکر میرے پاس..
میں کرسی کھینچ کر داوا کے سامنے بیٹھ گیا..
زندگی بدلنا چاہتا ہے اپنی..داوا نے میری انکھوں میں دیکھ کر سوال کیا..
کون نہیں بدلنا چاہتا میں تو ویسے ہی فٹ پاتھ...
کم بولا کر..داوا نے میری بات کاٹ دی..
بھاتی بھی سامان رکھ کر واپس اچکی تھی اور کرسی لے کر ہمارے پاس اکر بیٹھ گئی تھی مگر اب وہ مململ کی قمیض کے نیچے جینز پہن چکی تھی..
میں سارے دو نمبر دھندے کرتا ہوں لڑکی, دارو, نشہ ہر کام...تو اتما پرماتما کو تو نہیں سوچتا ناں..
پاپی پیٹ سوچنے کدھر دیتا ہے یہ سب..میں نے اس بار مختصر جواب دیا..
ہاں اچھا ہے اپنے دھندے میں یہ سب سوچنے والوں کی جگہ نہیں ہے..
پچھلے دنوں ایک انکائونٹر میں میرا خاص ادمی مارا گیا ہے جس سے مجھے بہت نقصان ہورہا ہے..
تم بے فکر ہوجائو میں ہر طرح..
چپ بے سسرے..چے پدی اور چے پدی کا شوربہ..تو میرا دھندا سنبھالے گا..داوا نے میری بات کاٹ دی..
مجھے غصہ تو بہت ایا مگر میں برداشت کرگیا..
اگر داوا کو میری اصلیت پتہ چل جاتی تو اسکی دھوتی میں ہی پیشاب نکل جاتا..
مگر میں ابھی انسانی روپ میں تھا اور اپنی شکتیاں کھو چکا تھا تو مجھے انسان ہی طرح چلنا تھا..
بھاتی تو شہر میں رہ چکی اونچی نیچی ہر جگہ پر جاچکی..پر تجھے ابھی بہت کچھ دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے..
کھٹمنڈو میں میتی دیوی ٹیمپل کے پاس میرا ایک ٹھکانہ ہے جو خالی ہے تم دونوں وہاں چلے جائو..
بھاتی اسے ادب اداب سکھا اچھی بری جگہوں پر اٹھنا بیٹھنا اور بڑے لوگوں کی طرح پیش انا سکھا..
مجھ سے کیا کام لینا چاہتے ہو تم..میں نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا..جواب میں داوا نے مجھے گھور کر دیکھا..
مطلب اگر پتہ ہو تو میں اس حساب سے محنت کروں ویسا بننے کی..میں نے وضاحت کی..
چپ کرجا تو..بولا ہے ناں کہ کم بولا کر میرے سامنے..
بھاتی تو جا سامان باندھ اپنا باہر ڈرائیور کھڑا ہے وہ تم لوگاں کو ادھر چھوڑ ائے گا میں یہیں رکوں گا..
اور یہ پکڑ..داوا نے بڑے نوٹوں کی ایک گڈی نکال کر بھاتی کی طرف بڑھائی خرچہ پانی رکھ اس کے کپڑوں جوتوں کا انتظام کر..
بھاتی نے نوٹوں کی گڈی لے کر ہاتھ میں تھام لی اور اٹھ کر اندر کمرے کی طرف بڑھ گئی..
داوا خود کو کوئی بہت بڑا طرم خان بدمعاش سمجھتا تھا اور شاید ہو بھی اسی لئے اس کے لہجے اور باتوں میں اتنی رعونت تھی اور اپنے سامنے وہ کسی کو کچھ نہیں جانتا تھا..
فی الحال خاموش رہنا میری مجبوری تھی کہ میں ایک عام ادمی کے روپ میں تھا اور اپنی شکتیاں بھی کھو چکا تھا تو بہتر یہی تھا کہ جو ہورہا ہے اسے برداشت کیا جائے..
مگر میں نے سوچ لیا تھا جلد از جلد میں کالے جادو کی کوئی ناں کوئی شکتی حاصل کر لوں گا اس کا چلہ کاٹنے کے لئے مجھے سکون اور تنہائی کی ضرورت تھی جو امید تھی اس نئے ٹھکانے پر مل جاتی..
اس بھشکو نے مجھے سنبھلنے کا موقع نہیں دیا تھا اور ایسے وقت میں وار کیا تھا جب میں سحر کے جسم میں تھا اور میری زیادہ تر شکتیاں بے اثر تھیں..
اس کے جسم سے باہر اتے ہیں بھشکو نے مجھے بے دست و پا کردیا تھا..
مجھے اس سے انتقام لینا تھا اور اپنی شکتیاں واپس حاصل کرنی تھیں یہی میری زندگی کا مقصد تھا اب..
جن زاد
قسط نمبر : 06
تحریر : ارشد احمد
بھاتی کچھ دیر بعد کمرے سے واپس ائی تو اس کے ہاتھ میں ایک بیگ تھا جس میں شاید اسکے کپڑے اور دیگر سامان تھا..
ٹھیک ہے جائو تم دونوں اور بدری کہیں ادھر ادھر غائب ہونے کی کوشش مت کرنا..
تو پاتال میں بھی چلا جائے گا تو میں وہاں سے بھی تجھے نکال کر لے ائوں گا مجھے دھوکا دینے کی کوشٹ مت کرنا کبھی بھی..
میں تجھے زندگی بدلنے کا موقع دے رہا ہوں مجھے نراش مت کرنا..داوا نے دھمکی امیز لہجے میں مجھے تنبیہ کی..
بے فکر رہو استاد تمھاری مرضی کے خلاف کچھ نہیں ہوگا..میں نے دل ہی دل میں اس پر لعنت بھیجتے ہوئے مگر بظاہر مسکراتے ہوئے کہا..
ایک بار میری شکتیاں واپس اجائیں تیرے جیسے بدمعاش میرے لئے چیونٹی کی حیثیت بھی نہیں رکھتے...یہ میرے دماغ میں اٹھنے والے خیالات تھے فی الحال جن کا اظہار کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا میں..
دو تین گھنٹے بعد میں اور بھاتی اس مکان میں موجود تھے جو داوا کا خفیہ ٹھکانہ بھی تھا..
راستے میں اتے ہوئے بھاتی نے میرے لئے کپڑے, جوتے اور دیگر کچھ سامان بھی خریدا تھا اس لئے ضرورت سے زیادہ وقت لگ گیا..
یہ تین کمروں کا ایک مکان تھا جس میں ضروریات زندگی کے تمام لوازمات موجود تھے حتی کہ کچن میں راشن تک موجود تھا..
اس کا مطلب یہی تھا کہ یہ جگہ داوا کے مستقل استعمال میں رہتی تھی..
نہا دھو کر میں اور بھاتی ڈرائنگ روم میں اکر بیٹھ گئے..
بھاتی چائے بنا لائی تھی اور ہم چائے پیتے ہوئے باتیں کر رہے تھے..
تیرا کیا خیال ہے بھاتی داوا مجھ سے کیا کام لینا چاہتا ہے...
میں کچھ نہیں کہ سکتی..ہوسکتا ہے لڑکیوں کو گھیرنے کے لئے تجھے استعمال کرے...
یہ بھی ممکن ہے اس کے دماغ میں کچھ اور چل رہا ہو جو میری تیری سوچ سے ہٹ کر ہو..
مگر یہ طے ہے کہ کچھ خاص بات ہے تب ہی اس نے تیرے ساتھ مجھے یہاں بھیجا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا..
ایک بات بتا بھاتی..
اگر میں بھاگنا یا غائب ہونا چاہوں تو میرا ساتھ دے گی تو..میں نے اس کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا..
تجھے داوا کی پہنچ کا اندازہ نہیں ہے شاید..
اس کی جڑیں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں..
اگر تو اس سے بھاگنا چاہتا ہے تو پھر یہ ملک چھوڑ کر کسی دور دراز جگہ پر جانا پڑے گا جہاں اس کا سایہ بھی ناں پہنچ سکے..
مگر تو بھاگنا کیوں چاہتا ہے رے..
میں نے تجھے کہا تھا اگر تو میرا مرد بننے پر راضی ہوجا تو میں داوا کو منا لوں گی..
تیرا منانا..میں نے منہ بنایا..
بات تو وہی ہے ناں کہ اس کی غلامی اور اس کے زیر اثر ہی رہنا پڑے گا ناں..
ہاں مگر وہ اچھوں کے ساتھ بہت اچھا ہے مگر بروں کے ساتھ ان سے زیادہ بدتر..
اگر تو چاہے تو..
چھوڑ..میں کہیں بھاگنے کا نہیں سوچ رہا ایسے ہی بات کر رہا تھا میں..یہ بتا تو ناپاک کب ہوگی..
میری بات سن کر بھاتی کے چہرے پر عجیب سے تاثرات ابھر ائے..
عجیب پاگل ہے تو..مرد یہ پوچھتے ہیں عورت سے کہ پاک کب ہوگی اور تو پوچھ رہا ہے ناپاک کب ہوگی..ارے تیرا دماغ کھسکا ہوا ہے کیا..
تو اپنے ننھے سے دماغ پر زور مت دے جو پوچھا اس کا جواب دے ناں..
تین دن بعد..مگر تو پوچھ کیوں رہا ہے..کیا کرنا ہے تجھے میری ناپاکی سے..
مجھے خون چاہئے تھوڑا سا..میں نے جواب دیا..
چھی..کیسا گندا ادمی ہے رے تو..
بات کرتے کرتے اچانک بھاتی کی انکھوں میں چمک ابھری..تو کسی جادو ٹونے کے چکر میں تو نہیں ہے..
تو نہیں مانے گی میری بات مگر میں نے ایک بات بھی تجھ سے جھوٹ نہیں بولی تھی بھاتی..
میں انسان نہیں ہوں..مگر اس بات کو میں ثابت نہیں کرسکتا ہوں کیونکہ میرے پاس میری شکتیاں نہیں ہیں ابھی ورنہ داوا جیسے میرے پائوں کی دھول بھی نہیں..
بھاتی بے یقینی سے کچھ دیر مجھے دیکھتی رہی..
تو کیا کرنا چاہتا ہے..مجھے بتا..مجھ سے جو ہوسکا ضرور کروں گی..
مگر یہ جادو ٹونے کے کاموں میں کسی اچھائی کی امید نہیں ہوتی..
نہیں بھاتی ایسا نہیں ہے..
میں جادو کی کوئی شکتی حاصل کرنا چاہ رہا ہوں جس سے کم سے کم اس قابل ہو سکوں کہ اپنے چھوٹے موٹے مسئلے حل کر سکوں..
تو اس کے لئے تو چلہ کاٹے گا کوئی..
ہاں..میں کچھ چیزیں جانتا ہوں اگر میں وہ کر لوں تو کچھ شکتیاں حاصل کر لوں گا مگر مجھے اکیس دن ناپاک رہ کر عمل کرنا پڑے گا..
تو کالے جادو کا عمل کرنا چاہتا ہے یا سفلی کا..
ناں یہ کالا جادو ہے ناں ہی سفلی سمجھ لے یہ دونوں بلکہ تین جادئوں کا مکسچر ہے..
کس چیز کا عمل...کونسی شکتی حاصل کرنا چاہ رہا ہے تو..
نادیدہ ہونے کی..میں نے جواب دیا..
دوسروں کی نظر سے پوشیدہ رہ کر بہت سے کام سر انجام دئے جا سکتے ہیں..
عجیب جن ہے تو بھاتی ہنسی..
اب تو چلے کاٹ کر جادو کی شکتیاں حاصل کرنا چاہ رہا ہے..
اسمیں ہنسنے کی کیا بات ہے..
میرے پاس اپنی شکتیاں بہت تھیں مگر..
ہاں ہاں بھشکو نے شکتیاں چھین لیں..سن چکی میں یہ کہانی..بھاتی نے میری بات کاٹی..
یہ بتا کہ نادیدہ ہونے کا عمل تو کرے گا کہاں پر اور کتنا وقت لگے گا کتنی دیر کا ہوگا..بھاتی نے پوچھا..
یہ جو چھوٹا سا اسٹور ہے اسے ٹھیک کر کے یہاں کرلوں گا عمل اور روز رات کو کرنا پڑے گا عمل تین سے چار گھنٹے کا ہوگا..مگر اس کے لئے مجھے کچھ سامان چاہئے وہ لانا پڑے گا..
ہاں تو کیا مسئلہ ہے صبح جاکر لے ائیں گے بازار سے..بھاتی نے کہا..
ابے یہ دال چاول تھوڑی ہیں جو پرچون کی دکان سے جاکر لے ائیں گے..
حصار قائم کرنے کے لئے کچھ سامان چاہئے پھر انسانی کھوپڑی اور ران کی ہڈی چاہئے اور بھی کافی کچھ ہے..
میری باتیں سن کر بھاتی کی انکھیں کھل گئیں..تو کھوپڑی کدھر سے ملے گی..اور ہڈی..یہ کوئی دکان پر بکنے کی چیز تھوڑی ہے..تو کن چکروں میں پڑ رہا ہے بدری..داوا کو بھنک بھی لگ گئی تو تیرے ساتھ میں بھی ماری جائوں گی..
ڈرتی ہے کیا تو..میں نے سوال کیا..
ہاں بنا مقصد کتے کی موت مرنے سے ڈرتی ہوں میں..جب کوئی ساتھ بھی ناں ہو زندگی کا کوئی محفوظ اسرا بھی ناں ہو..بھاتی نے شکوے کے انداز میں مجھے کہا...
بے فکر رہ بھاتی..
اگر میں کامیاب ہوگیا تو وعدہ ہے تجھے اکیلا نہیں چھوڑوں گا..
تو بہت جلد جان جائے گی میں انسان زاد نہیں ہوں اور..
ہائےےےے..بھاتی نے چٹخارہ لیا..
ایک جن میرا مرد..کتنا مزہ ائے گا ناں..پر تو تو بتا رہا تھا کہ تیری عمر ہزاروں برس ہے.. اتنے بڈھے کھوسٹ جن کا میں کیا کروں گی..بھاتی نے شرارتی لہجے میں کہا..
بھاتی اب تک میری باتوں کو مذاق سمجھ رہی تھی مگر اسے یقین دلانے کا میرے پاس کوئی طریقہ نہیں تھا..
اچھا چل اب سوتے ہیں جا تو سو جا اپنے کمرے میں مجھے بھی نیند پوری کرنی ہے پھر دن میں نپٹانے ہیں بہت سے کام..
ٹھیک ہے جاتی ہوں..پر رات کو ڈر لگے تو میرے کمرے میں مت انا کٹاری رکھتی ہوں پاس اور..
ہاں کوئی میلی انکھ سے دیکھے تو اسکا پیٹ پھاڑ سکے..ٹھیک ہے جا سوجا نہیں اتا میں مجھے کوئی شوق نہیں اپنا پیٹ پھڑوانےکا..
بھاتی کھلکھلاتی ہوئی کمرے کی طرف بڑھ گئی اور میں بھی دوسرے کمرے میں اکر بستر پر دراز ہوگیا..
بھاتی کے ساتھ کوئی ذہنی یا نفسیاتی معاملہ تھا..
مردوں کو للچانے کی خواہش فطری نہیں تھی...
یہ میڈیکل میں نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے جس میں اندر کی گھٹن اور فرسٹریشن انسان کو ایسے کاموں پر اکساتی ہے..
بھاتی بھی یقینا اسی کیفیت کا شکار تھی جس کی بڑی وجہ شاید نااسودگی اور جذبات پر کنٹرول کرتے کرتے حد سے گزر جانا تھا..
یہ مسئلہ عورتوں میں بہت عام ہوتا ہے اور اس نفسیاتی مسئلے کا بہت اسان حل موجود ہے چند دن میں بھاتی ٹھیک ہوجاتی مگر مجھے فی الحال بھاتی کے مسئلے سے زیادہ ضروری معاملات درپیش تھے..
سب سے پہلا کام تو مجھے کوئی ناں کوئی شکتی حاصل کرنی تھی جس سے میں اپنے مسائل سے نپٹ سکوں اور میری نظر میں سب سے زیادہ ضروری نادیدہ ہونے کی شکتی تھی جسے حاصل کرکے میں ناں صرف بہت سے مسائل سے بچ سکتا تھا بلکہ بہت سے معاملات سے بھی نپٹ سکتا تھا..
مگر اس کے لئے جو چیزیں درکار تھیں انھیں حاصل کرنا اسان نہیں تھا خاص کر انسانی کھوپڑی اور ہڈی پھر چلے کے لئے باقی لوازمات بھی...
یہ شکتی حاصل کرنے کے بعد مجھے بدھ بھشکو کو تلاش کر کے قتل کرنا تھا..
مگر فی الحال میں یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ بدھ بھشکو کے مرنے کے بعد مجھے اپنی شکتیاں واپس ملیں گی بھی یا نہیں..
پھر ان سب معاملات کے ساتھ داوا کے مسئلے تھے..
موجودہ حیثیت میں ناں ہی داوا سے لڑا جاسکتا تھا ناں ہی اس سے بغاوت کرنا ممکن تھا اور میں یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ مجھ سے کیا کام لینے کا خواہشمند ہے..
انھی سب سوچوں اور خیالات میں گم میں نیند کی وادیوں میں اترتا چلا گیا..
جن زاد
قسط نمبر : 07
تحریر : ارشد احمد
صبح میری جلدی انکھ کھل گئی..
اٹھ کر نہا دھو کر کمرے سے باہر ایا تو بھاتی گھر کی صفائی ستھرائی کر چکی تھی اور اب ناشتے کے لئے میری منتظر تھی..
حسب معمول اس نے صرف قمیض پہنی ہوئی تھی..
اٹھ گیا تو..
ہاں تو اور کیا تجھے میرا بھوت نظر ارہا ہے یہ..
بھوت تو نہیں مگر تو خود ہی بولتا ہے جن ہے تو..بھاتی ہنسی..
اچھا بھوک لگی ہے ناشتہ پھر بازار جانا ہے..
ایک گھنٹے بعد ہم دونوں تیار ہوکر بازار کا رخ کر چکے تھے..
بھاتی کو میں نے عام ملنے والی کچھ چیزیں خریدنے کی ذمہ داری دی اور خود دیگر اشیاء تلاش کرنے لگا..
دوپہر تک ہم سب چیزوں کا انتظام کرچکے تھے مگر الو کے پروں کی تلاش میں ہمیں بھٹکنا پڑا..
اخرکار ایک کالے جادو کے عامل سے ڈھیر سارے روپوں کے عوض میں پر بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا..
گھر واپس اتے اتے ہمیں شام ہوچکی تھی اور بھاتی تھک کر چور ہوچکی تھی اس لئے کھانا باہر سے لیتے ائے..
اگلے دو دن میرے قبرستانوں اور مرگھٹ کےمعاملات میں گزرے..
رات کے اندھیرے میں ایک ٹوٹی ہوئی قبر کھود کر میں مردے کی کھوپڑی اور ہڈی حاصل کرنے میں کامیاب رہا..
اسی رات میں مرگھٹ سے تازہ جلی ہوئی لاش کی راکھ بھی لے ایا..
اب میرے پاس عمل کرنے کے لئے تمام لوازمات پورے تھے..
گھر میں موجود اسٹور کو ہم پہلے ہی مکمل خالی کر چکے تھے..
اب صرف بھاتی کا انتظار تھا..
اس کے بھی تین دن پورے ہوچکے تھے مگر اس کے دن شاید اگے پیچھے ہوتے تھے..
پانچویں شام مغرب کے بعد بھاتی نے ناپاک ہونے کی خوش خبری سنائی اور ایک شیشی میں خون بھر کر میرے حوالے کردیا..
بھاتی کو کمرے سے ناں نکلنے اور دیگر کچھ ہدایات دے کر میں سامان لے کر اسٹور میں اگیا..
سب سے پہلے میں نے چھرا نکال کر اس سے حصار قائم کیا اور سیندور کا دائرہ بنا دیا..
اس کے بعد میں نے بھاتی کے خون, چربی اور تیل وغیرہ کو ملا کر کھوپڑی میں ڈالا اور روئی کی لمبی سی بتی بنا کر اس میں ڈبو دی..
اس کے بعد میں نے الو کے پروں اور ہرمل کو سامنے رکھ لیا..
سارے کام مکمل کر کے میں نے کھوپڑی میں موجود روئی کی بتی کو اگ لگائی اور منتر پڑھنا شروع کردیا..
"ﻣﻮﮨﻨﯽ ﻣﺎﺗﺎ , ﺑﮭﻮﺕ ﭘﺘﺎ , ﺑﮭﻮﺕ ﺳﺮﺑﺘﺎﻝ , ﺍﮌﯼ ﺍﮌﯼ ﮐﺎﻟﯽ ﻧﺎﮔﻨﯽ ﺟﻮ ﺟﺎ ﻻﮒ , ﻧﮧ ﮐﮭﮍﮮ ﺳﮑﮫ ﻧﮧ ﻟﯿﭩﮯ ﺳﮑﮫ ﻧﮧ ﺳﻮﺋﮯ ﺳﮑﮫ , ﭼﻠﻮ ﻣﻨﺘﺮ ﭘﮭﺮ ﺗﺒﺎﺷﺎ , ﮐﺎﻟﯽ ﻣﺎﺗﺎ ﺷﺒﺪ ﺩﮐﮭﺎ ﺟﺎ..(نامکمل)"
یہ کافی لمبا منتر تھا جو مجھے تین سو نناوے دفعہ پڑھنا تھا..
اکیس روز کا چلہ کاٹ کر یہ منتر سدھ ہوجاتا اس کے بعد میں اسے استعمال کر کے نادیدہ ہونے کی شکتی حاصل کرلیتا..
میں ہرروز رات کو یہ منتر پڑھتا رہا درمیان میں مختلف بلائوں وغیرہ کے حملے ہوتے رہے..
مگر میں جانتا تھا کہ کوئی چیز حصار کے اندر داخل نہیں ہوسکتی اس لئے میں مطمئن تھا..
دن میں بھاتی اور میں مختلف ہوٹلوں اور تفریحی مقامات پر گھومتے پھرتے رہے..
مجھے منتر شروع کئے ابھی دس دن ہوئے تھے...
داوا کے ایک ادمی نے اکر اطلاع دی کہ داوا کچھ دن کے لئے شہر سے باہر ہے...
اس لئے وہ نہیں اسکتا ساتھ اس نے دیگر کچھ ہدایات بھی دیں..
میرے لئے یہ اچھی بات تھی میں سکون سے چلہ مکمل کر سکتا تھا..
اخرکار اکیس دن گزر گئے اور میرا چلہ مکمل ہوگیا..
میں رات کو ساڑھے تین بجے چلہ مکمل کر کے اٹھتا تھا..
بھاتی کو علم تھا اج میری اخری رات ہے چلہ مکمل ہونے کی اس لئے وہ بھی جاگتی رہی..
اخری رات کافی مشکل ثابت ہوئی مگر حصار کی وجہ سے میں محفوظ رہا ڈر کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا..
اکیس دن مشقت میں تو گزرے مگر خوشی تھی کہ کم سے کم ایک شکتی حاصل کرچکا ہوں..
میں نے حصار ختم کیا سارا سامان سمیٹا اور منتر پڑھ کر نادیدہ ہوکر کمرے سے باہر اگیا..
بھاتی دوسرے کمرے میں میری منتظر تھی..
نیند اس کی انکھوں میں بھری ہوئی تھی مگر ساتھ ہی تجسس اسے سونے نہیں دے رہا تھا..
خوشی سے میرا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اب داوا یا کوئی بھی اتنی اسانی سے مجھ پر حاوی نہیں ہو سکتا تھا...
میں کمرے سے نکل کر بھاتی کے برابر صوفے پر اکر بیٹھ گیا...
بھاتی کی نظریں اسٹور کے دروازے پر جمی ہوئی تھیں...
نادیدہ حالت میں یہ میرا اختیار تھا کہ اپنے جسم کو مجسم رکھوں یا لطیف..
لطیف جسم کی حالت میں کسی بھی دروازے یا دیوار کے ار پار جانا ممکن تھا مگر میں کسی چیز کو چھو یا پکڑ نہیں سکتا تھا ناں ہی میری اواز کوئی اور سن سکتا تھا دیکھنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا...
نادیدہ حالت میں بات کرنے یا کسی چیز کو چھونے وغیرہ کے لئے مجھے اپنے جسم کو مجسم کرنا پڑتا تھا...
مگر اس وقت میں لطیف حالت میں بھاتی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا مگر وہ اس سے انجان اسٹور کی طرف دیکھ رہی تھی اور اپنی پسندیدہ صرف ململ کی قمیض پہنے ہوئے بیٹھی ہوئی تھی..
میں نےنادیدہ حالت میں ہی اپنے جسم کو مجسم کیا اور ایک انگلی اس کی ٹانگ پر نیچے سے اوپر پھیرنی شروع کی..
بھاتی اچھل پڑی وہ سمجھی شاید کوئی کیڑا ہے اس نے اپنی ہاتھ سے اپنی ٹانگ جھاڑی مگر تب تک میں اپنا ہاتھ ہٹا چکا تھا..
اچانک میں نے منتر پڑھ کر خود کو ظاہر کردیا..
بھاتی کو چند لمحوں بعد احساس ہوا کہ کوئی اس کے برابر میں بیٹھا ہے..
اس نے گردن موڑ کر دیکھا اور ایک زوردار چیخ اس کے منہ سے نکل گئی..
اسکی انکھیں خوف سے پھٹ رہی تھیں..
تو....تو...ادھر...کیسے اگیا..بھاتی پھٹی پھٹی نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی..
حالانکہ پہلے دن سے اب تک ہر بات ہر چیز اس کے علم میں تھی اور وہ یہ جانتی تھی کہ میں نادیدہ ہونے کا عمل کر رہا ہوں...
مگر سوچنا اور اپنے سامنے کچھ مافوق الفطرت ہوتا دیکھنا..
دونوں میں زمین اسمان کا فرق ہوتا ہے..
بھاتی بھی اسی کیفیت کا شکار تھی..
پاگل ہوگئی ہےکیا..
تجھے نہیں پتہ میں عمل کر رہا تھا نادیدہ ہونےکا..
اج میرے عمل کی اخری رات تھی..
عمل کامیاب رہا ہے بھاتی..
بہت دیر بعد میں بھاتی کو یقین دلا پایا اور اس کی حالت اعتدال پر ائی..
نارمل ہوتے ہی بھاتی مجھ سے لپٹ گئی اور میرے چہرے پر بوسوں کی بارش کردی..
یہ ابے اختیاری کی کیفیت تھی جس میں حوس نہیں تھی...
مگر میں جو ایک لمبے وقت سے عورت کی قربت سےدور تھا...
اس کا بدن میری جذبات میں ہلچل مچا رہا تھا..
بھاتی..بس کر..دیکھ میری نیت خراب ہوجائے گی پھر تو کٹاری نکال لائے گی..
میں نے ماحول کو نارمل کرنا چاہا..
بھاتی پیچھے ہٹ گئی..
گہری نظروں سے مجھے دیکھا..
نہیں بدری ناتھ یا جو کچھ بھی تیرا نام ہے..
بھاتی ہار گئی تجھ سے..
اج سے بھاتی تیری ہے..
تو سوئیکار کر یا ناں کر یہ تجھ پر ہے..
تو میرا مرد بن جا مجھے رکھیل بنا لے یا نوکرانی بنا کر رکھ..
مگر تیرے علاوہ کوئی مرد میری زندگی میں کبھی نہیں ائے گا یہ وعدہ ہے بھاتی کا..
میں حیرت سےبھاتی کو دیکھتا رہ گیا..
جن زاد
قسط نمبر : 08
تحریر : ارشد احمد
بھاتی..
تو شاید اب بھی اس بات پر یقین نہیں کرتی کہ میں ادم زاد نہیں ہوں..
کسی عام ادمی کے لئے یہ چلہ مکمل کرنا اسان نہیں تھا..
چلے کے دوران طرح طرح کی بلائوں نے اور بھیانک شکلوں والے جادو کے بیروں نے مجھ پر حملہ کیا..
مگر میں خود جن ہوں اس لئے میرا ان تمام چیزوں سے خوفزدہ ہونا ممکن نہیں تھا..
تجھ سے پہلے ہزاروں برسوں میں کئی لڑکیاں میری زندگی میں ائی ہیں..
مگر ہر ایک دس, بیس, پچاس سال میں مرجاتی ہے..
میرا اب من نہیں کرتا کسی سے دل لگانے کا یا کسی کو زندگی میں شامل کرنے کا..
کیونکہ اخرکار وہ فنا ہوجاتی ہے اور میرا دل غم سے بوجھل ہوجاتا ہے..
اس لئے کئی سو برس ہوگئے میں بس عورت کو وقتی تسکین کے لئے استعمال کرتا ہوں اور اس سے دور ہوجاتا ہوں..
کیونکہ ویسے بھی اگر میں انسانی شکل میں ناں ہوں تو کوئی لڑکی میری طاقت برداشت نہیں کر سکتی..
تو بہت حسین ہے خوبصورت ہے تیرا جسم بھی افت ہے مگر تجھ میں اور مجھ میں بہت فرق ہے..
اج نہیں تو کل تو اس بات پر بھی یقین کر لے گی کہ میں جن زاد ہوں جیسے تونے مجھے نادیدہ ہونے کی شکتی حاصل کرتے دیکھا ہے..
میں تجھے اپنا بھی لوں تو بھی تو چند برس تک ساتھ رہ لے گی اخرکار ہر انسان کی طرح تجھے بھی ایک دن مرنا ہوگا..
تب تیرا بچھڑنا مجھے بہت تکلیف دے گا..
میں ہزاروں برس سے زندہ ہوں اور مزید جانے کتنے ہزاروں برسوں تک جئیوں گا..
تو میراساتھ نہیں دے سکے گی اور میں تجھے دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا..
بھاتی خاموشی سے میری باتیں سن رہی تھی اس بار اس نے میری باتوں کا مذاق نہیں اڑایا تھا..
ہاں شاید اس بات پر کسی کے لئے بھی یقین کرنا اسان نہیں کہ تو جن ہے..
مگر میں مان لیتی ہوں کہ تو جن ہے تب بھی میں تیرے ساتھ رہنا چاہتی ہوں..
اس کا کوئی تو راستہ ہوگا ناں..بھاتی نے میری انکھوں میں جھانکا..
ہاں ممکن ہے..
جادو کے زور سے تو اپنی روح کو دوسرے بدن میں منتقل کر سکتی ہے اگر ایک جسم مر جائے تو..
مگر تجھے اس مقام تک پہنچنے کے لئےبرسوں کی ریاضت درکار ہوگی اور..
میں تیرے ساتھ کے لئے تیرے لئے سب کچھ کر سکتی ہوں اگر تو مجھے سوئیکار کر لے..بھاتی نے میری بات کاٹی..
میں اج بلکہ ابھی اس لمحے سے وہ سب کرنے کو تیار ہوں جو تو بولے گا...
ایک بات پوچھوں بدری تیرا اصلی نام ہے..
نہیں میرا اصلی نام شاشین ہے اور میرا قبیلہ سمانتن ہے جو کوہ ہندوکش کے دامن میں اباد ہے..
اچھا...شاشین..مجھے بتا کہ مجھے امر ہونے کے لئے کیا کرنا پڑے گا..اور سچ بتا واقعی امر ہونا ممکن ہے..
ہاں بھاتی ممکن ہے اہستہ اہستہ تجھے میری ساری باتوں کا یقین اجائے گا..
تجھے لکھنا پڑھنا اتا ہے..میں نے بھاتی سے سوال کیا..
ہاں تو کیا تو مجھے جاہل سمجھتا ہے..
میں نے کئی جماعتیں پڑھی ہیں اور میں کئی مہینے تک داوا کا سارا حساب کتاب کرتی رہی ہوں..پر جادو کا یا امر ہونے کا پڑھائی سے کیا تعلق ہے..
دیکھ بھاتی..
انسانوں کا معاملہ ہم جنوں سے بالکل الگ ہوتا ہے..
دنیا میں کوئی بھی کام ہو کوئی بھی معاملہ ہو کوئی بھی مسئلہ ہو...
اگر دماغ کا فوکس ٹھیک ہے اگر دماغ ایک جگہ ہوتا ہے تو انسان ہر کام کر سکتا ہے..
میں..بھاتی نےکچھ بولنا چاہا..
چپ کرجا خاموشی سے میری پوری بات سن پہلے..
انسان کی زندگی میں بے شمار صلاحیتیں کام کرتی ہیں...
یہ سب شعوری صلاحیتیں ہیں...
مثلاً محسوس کرنا، سننا، سونگھنا، دیکھنا، چکھنا، بولنا، چھونا، پکڑنا، چلنا، سونا اور بیدار ہونا وغیرہ..
جب کوئی شخص کسی صلاحیت کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ اس صلاحیت سے ناواقف ہوتا ہے..
کسی بھی صلاحیت کو حاصل کرنے کے لئے اس کی توجہ, اس کا فوکس یا ارتکاز اگر سو فیصد نہیں ہوگا تو وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکتا..
تیرے ساتھ تو کوئی خاص مسئلے نہیں ہیں ناں ہی معاملات مگر ایک عام عورت یا مرد کے سو جھنجھٹ ہوتے ہیں..
پڑھائی, لکھائی, فیملی, خاندان, سسرال, جھگڑے, پسند نا پسند اور بہت کچھ..
اگر کوئی شخص اپنا فوکس یا ارتکاز ٹھیک کر لے تو وہ ناں صرف اپنے سارے مسائل کو حل کر سکتا ہے بلکہ ہر قسم کی ذہنی پریشانی, فکر اور غم سے چھٹکارا بھی حاصل کر سکتا ہے..
ٹینشن سے لے کر ذہنی پریشانی تک اور نفسیاتی مسئلوں سے یادداشت کی کمزوری تک, شک سے لے کر جھنجھلاہٹ اور چڑچڑے پن تک, ڈر اور خوف سےلے کر قوت ارادی, قوت فیصلہ کی کمی تک اور نیند ناں انے سے لے کر شاید انسان کے نوے فیصد مسائل کی وجہ ارتکاز یا فوکس کی کمی ہوتی ہے..
جادو ہو یا ہپناٹزم یا دنیا کا کوئی بھی علم کوئی بھی صلاحیت ہرچیز کی بنیاد یہی ارتکاز ہے..
اگر تو واقعی ریاضتیں کرنے, چلے کرنے اور شکتیاں حاصل کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے تو سب سے پہلے تجھے خود میں یہ فوکس یا ارتکاز پیدا کرنا پڑے گا..
ہاں میں تیار ہوں اگر تو میرا ساتھ دے تو میں اگ میں بھی چھلانگ لگا سکتی ہوں بھاتی مسکرائی..
یہ بتا کہ یہ ارتکاز یا فوکس ٹھیک کیسے ہوگا..
اس کے لئے مشقیں ہوتی ہیں بہت سی..میں نے جواب دیا..
تو یہ مشقیں کوئی بھی کر سکتا ہے کیا..بھاتی نے سوال کیا..
ہاں کر تو کوئی بھی سکتا ہے مگر استاد کے بناء کامیاب ہونا ممکن نہیں ہوتا..
کس مشق کا کیا نتیجہ نکلے گا کب مشق بدلنی ہے کب وقت کم یا زیادہ کرنا ہے اور ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو ایک ماہر استاد ہی بتا اور کروا سکتا ہے بس..
خود سے کرنے میں الٹا نقصان کا اندیشہ بھی رہتا ہے اور جسے ان سب چیزوں کا علم ہی نہیں وہ اس سے فائدہ بھی نہیں اٹھا سکتا..
ہاں تو میرا استاد تو ہے ناں بتا کیا مشق کرنی ہے میں ابھی سے تیار ہوں...بھاتی مسکرائی..
ٹائم دیکھ بھاتی کیا ہوگیا ہے سوجا اب میں صبح تجھے بتا دوں گا مشق اور کروا بھی دوں گا..
تو بیزار ہورہا ہے مجھ سے..بھاتی نے میری طرف دیکھا..
ارے بابا بیزار نہیں ہورہا تیرا خیال کر رہا تھا..
تجھے نہیں نیند ارہی تو سن پھر کان کھول کر..
سب سے پہلے کمرہ بند کر کے اکیلے بیٹھ جا جہاں کسی قسم کا شور ناں ہو باہر کا ناں کوئی ڈسٹرب کرے..
ایک پین اور ایک کاغذ لے کر لکھنا شروع کردے بس اور اس وقت تک لکھتی رہ جب تک قلم خود ناں رک جائے..
بس..یہ مشق ہے..اس میں کیا مشکل ہے.بھاتی نے سوال کیا..
اس کی واحد شرط یہ ہے کہ لمحے کے ہزارویں حصے کے لئے بھی سوچنا نہیں ہے کہ کیا لکھ رہی ہے بناء سوچے بس لکھتے جانا ہے جو خیال دماغ میں ائے اسے کاغذ پر اتارتے جانا ہے..
دو منٹ لگیں یا دس منٹ اخر دماغ خالی ہوجائے گا اور اسکے بعد سوچنا پڑے گا کہ کیا لکھوں تب بس روک دینا ہے..
ارے..بناء سوچے کیسے لکھ سکتا ہے انسان یار..بھاتی نے الجھ کر سوال کیا..
دیکھ بھاتی انسان کے دماغ میں ہر وقت بیسیوں, سینکڑوں خیال پیدا ہوتے اور ختم ہوجاتے ہیں..
ایک ہی وقت میں دماغ میں کئی چیزوں کے بارے میں خیال ارہے ہوتے ہیں..
تھوڑی سے پریکٹس درکار ہے اس کے لئے ایک دو بار مشکل ہوگی مگر اس مشق کی شرط ہی یہی ہے کہ لمحے کے ہزارویں حصے کے لئے بھی سوچنا نہیں ہے ناں سوچ کر کچھ لکھنا ہے..
سیکس سے لے کر محبت تک, غصے سے نفرت تک, خوشی سے غم تک, دوست سے دشمن تک..کھانا پکانے سے گھومنے تک مطلب جو خیال دماغ میں اتے جائیں انھیں کاغذ پر اتارتے جانا ہے بس..
چل ٹھیک ہے میں کرلوں گی یہ کام پھر..
بس جب لکھ لے تو وہ کاغذ مجھے دکھا دینا..
دن میں دو بار یہ مشق کرنی ہے جب اس کا رزلٹ انا شروع ہوجائے گا تو اگے بتائوں گا..
مجھے کیسے پتہ لگے گا کہ اس کا رزلٹ ارہا ہے..
یہی تو میں دیکھوں گا استاد کی ضرورت اسی لئے تو ہوتی ہے..
یہ انگلی پکڑ کر چلانے جیسا ہے..
پر میرے دماغ میں تو جانے کیا کیا خیال ائیں اچھے برے ماضی کے حال کے وہ تو پڑھے گا..مجھے شرم ائے گی..
ہاں بھاتی کسی پر تو بھروسہ کرنا پڑتا ہے ناں انسان کو اور تو تو میرے ساتھ زندگی بھر چلنے کی خواہشمند ہے..
پھر مجھ سے کیا پردہ اور ویسے بھی دائی سے پیٹ اور ڈاکٹر سے مرض چھپایا جائے تو علاج کیسے ہوگا..
یہاں تو معاملہ تیرا شکتیاں حاصل کرنے کا ہے..
چل ٹھیک ہے..میں ابھی کروں کوشش..تجھے نیند تو نہیں ارہی..بھاتی نے پرامید نظروں سے مجھے دیکھا..
مجھے نیند تو نہیں ارہی تھی مگر تھکن بہت زیادہ ہوچکی تھی اور میں ارام کرنا چاہ رہا تھا مگر بھاتی کو انکار نہیں کر پایا..
چل ٹھیک ہے جا کر لے تب تک میں کمرے میں جاکر نہا دھو لوں تو وہیں اجانا..
بھاتی نے چٹ سے گال پر بوسہ لیا اور اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی..
اہم نوٹ :-
اس کہانی میں جو مشقیں اور ان کے فوائد بتائے گئے ہیں اور بتائے جائیں گے وہ سو فیصد حقیقی ہیں نیز ان مشقوں سے معدے کے مسائل, ہارمونز کے مسائل, حتی کہ صحت سے لے کر رنگت تک یادداشت کی کمی سے لے کر اعتماد کی کمی تک اور ڈپریشن سے لے کر ٹینشن تک بیسیوں مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے مگر یہ تمام مشقیں "صرف" کسی ماہر اور مستند استاد کی زیرنگرانی انجام دیں.
جن زاد
قسط نمبر : 09
تحریر : ارشد احمد
کمرے میں اکر میں نہانے لگا اور کپڑے تبدیل کر کے بستر پر اگیا..
یقینا بھاتی مشق میں مصروف تھی..
جیسے ہی مشق مکمل ہوتی وہ کمرے میں اجاتی..
میں نے جو نادیدہ ہونے کی شکتی حاصل کی تھی..
اس میں مجھ میں بہت زیادہ حوصلہ اور طاقت پیدا ہوگئی تھی..
داوا جیسے لوگوں سے نپٹنا اب میرے لئے بہت اسان تھا..
میں لیٹا انے والے وقت کے بارے ڈیں سوچ رہا تھا کہ بھاتی کمرے میں داخل ہوئی..
اس کے ہاتھ میں دو تین کاغذ تھے..
یہ دیکھ شاشین میں نے لکھ لیا..
تو مجھے بددی بلایا کر شاشین کے بجائے..میں نے بھاتی سے کہا..
کیوں رے..شاشین بھی اچھا نام ہے ناں..
ہاں مگر میں داوا کو اپنا نام بدری بتا چکا ہوں اب وہ شک میں پڑجائے گا..
تو منتر پڑھ کر غائب ہوجانا..بھاتی کھلکھلائی..
مطلب تو مجھے شاشین پکارے گی داوا کو پتہ چلے گا کہ میرا نام بدری نہیں شاشین ہے اور میں نے جھوٹ بولا تھا..
وہ شک میں ائے گا یا کوئی کاروائی کرے گا تو میں منتر پڑھ کر غائب ہوجائوں اور پاگل کتے کو پیچھے لگا لوں اس ایک شکتی کے بل بوتے پر مگر تونے باز نہیں انا..
اچھا ناں بدری..یہ دیکھ ناں بتا..ٹھیک کی ہے مشق..
یار جب میں لکھنے بیٹھی تو سمجھ ہی نہیں ارہا تھا..
لکھنے کی اسپیڈ تو کم ہوتی ہے اور خیالات تو بجلی کی طرح اتے اور نکل جاتے ہیں کچھ چلتے رہتے ہیں دماغ میں..
ہاں..اصل میں اس کی مثال تو ایسے سمجھ لے جیسے کوئی باغیچہ ہو جس میں پھول, پودے, درخت, جھاڑیاں, ٹوٹے پتے, ٹہنیاں اور کیچووں سے لے کر بیسیوں چیزیں ہوتی ہیں..
یہ جو مشق ہے یہ لازمی نہیں کہ کسی عبارت کے پیراگراف کی طرح ہو..
کبھی کوئی جملہ, کوئی لفظ, پھر ایک دو جملے, پھر کچھ لفظ مطلب جس طرح سے دماغ میں خیال ائیں اتارتے جانا ہے خواہ سنگل الفاظ ہوں, مکمل جملے ہوں, ٹوٹے پھوٹے جملے یا پھر کوئی پیراگراف..
میں نے بھاتی کے ہاتھ سے کاغذ لے لئے..
بھاتی نے نواموز ہوتے ہی میری بات کو کافی بہتر انداز میں سمجھ کر مشق کی تھی بالکل ویسے ہی جیسے میں نے اسے اب وضاحت کی تھی..
کہیں ٹوٹے پھوٹے بے ربط جملے, کہیں الفاظ اور کہیں پیراگراف نما عبارت..
بہت اچھے بھاتی..میں نے ستائش سے اسے دیکھا اور کاغذات اسکی طرف بڑھا دئیے..
واقعی..مجھے شرم بھی ارہی تھی دیکھ کیا کچھ لکھ دیا عجیب لگ رہا تھا..
پر پھر سوچا تو استاد بھی ہے اور تجھے اپنا مرد بھی مانا ہے تو تجھ سے کیا چھپانا..
اچھا کیا تونے اب جاکر سوجا تھکن سے میرا بھی برا حال ہے یہ دن میں دو تین بار پریکٹس کیا کر..
جائوں میں واقعی..بھاتی نے شرارتی نظروں سے مجھے دیکھا..
ہاں جا اس وقت نیند اور تھکن سے برا حال ہے میرا..
چل ٹھیک ہے سوجا نہیں کرتی تنگ بھاتی مسکرائی اور کمرے سے باہر نکل گئی تو میں نے سکون کا سانس لیا اور انکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرنے لگا..
صبح انکھ داوا کی اواز کے ساتھ کھلی..
فریش ہوکر میں کمرے سے باہر ایا تو بھاتی اور داوا ناشتہ کر رہے تھے..میں بھی ان کے ساتھ ناشتے میں شامل ہوگیا..
بدری..مجھے بھاتی نے بتایا کہ تو پڑھا لکھا بھی ہے..میرا کام اسان ہوگیا ذرا..
تم دونوں تیاری کر لو یہاں سے تم لوگوں کو سرحدپار جانا ہے..
سرحد پار..میں نے داوا کو دیکھا..
میری بات مت کاٹا کر..داوا نے ناراضگی سے کہا..
تم لوگوں کو ریاست تامل ناڈو جانا ہے وہاں مدراس میں تم ایک نئی شخصیت اور شناخت کے ساتھ رہو گے اور بھاتی تمھاری سیکریٹری ہوگی..
تمھاری رہائش مرینہ بیچ کے پاس ایک بنگلے میں ہوگی اور تمھارا نیا نام پروفیسر انیل اگروال ہوگا..
دو چار دن میں تمھارے کاغذات بن کر اجائیں گے..
میں نے بھاتی کو سب کچھ سمجھا دیا ہے اور پیسے بھی دے کر جارہا ہوں..
تم لوگ اپنے نئے روپ کے حساب سے کپڑے اور دیگر چیزیں خرید لو اس کے بعد یہاں سے روانگی..داوا اپنی بات مکمل کر کے خاموش ہوگیا..
داوا پڑھا لکھا ہونا الگ بات ہے مگر پروفیسر..کس چیز کا پروفیسر اور کام کیا ہوگا وہاں میرا..میں نے الجھتے ہوئے پوچھا..
ابے بہرا ہے کیا..بتایا تو ہے میں نےبھاتی کو سب سمجھا دیا ہے..
میں جائوں گا بس..داوا اپنی بات مکمل کر کے اٹھ گیا..
مجھے غصہ تو بہت ارہا تھا مگر بھاتی نے انکھ کے اشارے سے مجھے پرسکون رہنے کا کہا..
داوا چلا گیا تو بھاتی نے گہرا سانس لیا..
تو اتنا غصہ کیوں کرتا ہے رے..
تو اور کیا کروں..سالا بات اس طرح کرتا ہے جیسے ہم اس کے غلام ہیں..
اپنے پائوں مظبوط کرو پہلے پروفیسر صاحب داوا سے نپٹنے کے لئے عمر پڑی ہے..بھاتی مسکرائی..
ارے ہاں..بھاڑ میں ڈال اسے یہ بتا کہ کیا نیا شوشہ چھوڑا ہے اس نے پروفیسر والا..
داوا کے منصوبے کے مطابق تجھے وہاں علم نجوم کا پروفیسر بن کر رہنا ہے..
نجوم, پامسٹری اور عملیات وغیرہ کا دھندہ کرنا ہے مگر ذرا اونچے پیمانے پر اور پڑھے لکھے طریقے سے..بھاتی نے تفصیل بتائی..
مجھے نجوم یا ان سب چیزوں کی الف بے بھی نہیں اتی..میں کیسے کروں گا یہ سب..
کرنا تھوڑی ہے لوگوں کو بیوقوف بنا کر مال سمیٹنا ہے بس..
تیرے پاس انے والے لوگ امیر کبیر لکھ پتی ہونگے..
ان سے مال سمیٹنا ہے تونے اس میں کیا مشکل کام ہے..
مگر بھاتی..اس کام میں اتنا پیسہ ہے کیا..
ہاں پیسہ تو بہت ہے مگر اتنا نہیں کہ جو دھندے داوا کرتا ہے اس کی برابری ہوسکے..
میرا خیال ہےداوا اس کی اڑ میں کوئی اور کھیل کھیلنا چاہتا ہے..
جس جگہ کی وہ بات کر رہا ہے وہاں عام ادمی رہنے کا تصور ہی نہیں کر سکتا..
مہنگا ترین علاقہ ہے وہ اور پھر وہاں کی رہائش..
پر بھاتی ہمیں ان سب چیزوں کی کیا ضرورت ہے..
تجھے اندازہ نہیں ہے شاید جو شکتی میں نے حاصل کی ہے اس سے میں کیا کچھ کر سکتا ہوں..
ہاں جانتی ہوں..اندازہ ہے مجھے تھوڑا بہت..
مگر ضرورت کیا ہے..میں نے کہا ناں جو کام اسانی سے ہورہے ہیں ہونے دے..
داوا تیرے کاغذات اور ساری چیزیں تیار کروا دے گا..
نئی شناخت بن جائے گی پھر مظبوط حیثیت بھی..
وہاں تو اسی چیز کا پروفیسر بننے کا ناٹک کرے گا ناں..
تو ناٹک کے ساتھ اور شکتیاں بھی حاصل کرنے کی کوشش کر لینا..
اس ایک شکتی کی مدد سے ناں تو اس بھشکو کے مقابل اسکتا ہے تو ناں اس کا مقابلہ کر سکتا ہے..
بقول تیرے تو ویسے ہی جن ہے چند سال بھی گزر جائیں اس سب میں تو تجھے کیا فرق پڑتا ہے بھاتی ہنسی..
جس دن میں نے اپنا روپ واپس حاصل کرلیا ناں تو یہ جو تیرے دانت نکل رہے ہیں ناں بند ہوجائے گا منہ..
اففف..جن..بھاتی نے چٹخارہ لے کر زبان ہونٹوں پر پھیری..
کتنا مزہ ائے گا ناں..میرا مرد ایک جن..اففف..
تیرا واقعی اسکرو ڈھیلا ہے..
اصلی روپ میں میرا قد اور سائز دیکھ کر ہی تیرا دم نکل جائے گا..
نہیں نکلتا فکر مت کرو پروفیسر صاحب اور تیاری پکڑو باہر چلیں اب سامان خرید لائیں..
داوا کہ کر گیا ہے اج کل میں تیاری کرلو اور تصویریں بھی بنوا لو اس کا ادمی کسی وقت بھی رات کو اکر لے جائے گا..
تصویریں کس لئے..
ارے کاغذات بنوانے ہیں ناں تو بناء تصویروں کے کیسے بنیں گے..بھاتی نے جھلاتے ہوئے کہا..
چل ٹھیک ہے میں اتا ہوں تیار ہوکر تو بھی تیار ہوجا..میں بھاتی سے کہ کر کمرے کی طرف بڑھ گیا..
بھاتی نے بلکل ٹھیک سوچا تھا جو کام اسانی سے ہورہے ہیں ہونے دیں اور اپنی مظبوچ شناخت بنا کر خود کو مزید طاقتور کیا جائے..
رہ گیا داوا تو اس سے میں جب چاہے جان چھڑوا سکتا تھا مگر بہتر تھا اس کے ذریعے سارے کام نپٹا لئے جائیں..
جن زاد
قسط نمبر : 10
تحریر : ارشد احمد
پانچویں دن ہم مرینہ بیچ کے پاس ایک بنگلے میں شفٹ ہوچکے تھے..
بنگلے پر میرے نام کا بورڈ موجود تھا..
پروفیسر انیل اگروال..
اور نیچے اسٹروپامسٹ سے لے کر عملیات تک بہت سی چیزوں کی تفصیلات درج تھیں..
میرا حلیہ مکمل تبدیل ہوچکا تھا اور فرنچ داڑھی اور سنہرے فریم کی عینک کے ساتھ میرا روپ کافی متاثرکن تھا..
بنگلے کے ڈرائنگ روم کو ریسیپشن اور ویٹنگ روم بنایا گیا تھا اور اندر میرا کمرہ حقیقت میں کسی ماہر پروفیسر کا کمرہ ہی لگ رہا تھا..
وسیع و عریض کمرے میں بھاری ابنوسی میز ایک طرف کتابوں کی الماری, دیواروں پر پامسٹری اور دیگر بہت سی تصاویر..
مجھے اب تک یہ سمجھ نہیں ارہا تھا کہ یہاں کون لوگ ائیں گے اور کیسے..
میں نے یہ سوال بھاتی سے بھی کیا تھا مگر اس کا حتمی جواب اس کے پاس بھی نہیں تھا..
داوا نے اسے صرف اتنا بتایا تھا کہ مقامی اخبارات کے ذریعے اور کلبوں وغیرہ میں اپنے لوگوں کے ذریعے میری شہرت اور مہارت کے قصے پھیلائے جائیں گے..
دو تین تو سکون سے گزر گئے ہم نے زیادہ تر وقت گھومتے پھرتے گزارا..
چوتھے دن صبح میں سو کر اٹھا تو بھاتی نے بتایا کہ کسی رینا ملہوترہ کا فون ایا تھا اپوائنٹمنٹ کے لئے مگر وہ کچھ وجوہات کی بناء پر صرف رات کو ملنے پر بضد تھی اس لئے اسے اگلے دن رات اٹھ بجے کا وقت دے دیا ہے..
اگلے دن تک اور کوئی خاص واقعہ پیش نہیں ایا شام سات بجے میں تھری پیس سوٹ پہن کر تیار ہوکر اپنے کمرے میں اگیا تھا..
بھاتی نے قیمتی ساڑھی پہن رکھی تھی اور ریسیپشن سنبھالی ہوئی تھی..
میں نے وقت گزاری کے لئے کتابیں دیکھنا شروع کردیں..
یہ ساری کتابیں پراسرار علوم سے متعلق ہی تھیں جانے داوا نے اتنا بڑا ذخیرہ کہاں سے جمع کیا تھا..
وقت گزاری کے لئے میں نے ہپناٹزم سے متعلق کتاب اٹھا کر پڑھنی شروع کردی...
ہپناٹزم یونانی زبان کے لفظ ’’ہپناسس‘‘ سے بنا ہے جس کا مطلب ہے نیند یا خمار...
انیسویں صدی میں ڈاکٹر جیمز بریڈ نے اس لفظ کو موجودہ معنی میں رائج کیا تھا...
دورجدید میں ہپناٹزم کی شروعات آسٹریا کے ڈاکٹر فرانز انٹون میسمر نے انیسویں صدی کے اوائل میں کی تھی...
میسمر ایک ماہر روحانیات تھا اس کے مطابق ہر شخص میں ایک مقناطیسیت ہوتی ہے...
اسی مقناطیسی قوت کو وہ اپنے جسم کے مختلف حصوں سے خارج کر کے اپنے معمول کو متاثر کر سکتا ہے...
ہاتھ اور آنکھیں اس کام میں خاص طور پر معاون ہوتی ہیں...
ڈاکٹر میسمر کا یہ فلسفہ اور طریقہ کار اس وقت اتنا مقبول ہوا...
کہ اسے باقاعدہ ایک علم تسلیم کر کے اس کا نام میسمریزم رکھ دیا گیا جو آج بھی کہیں کہیں استعمال ہوتا ہے...
بعدازاں ڈاکٹر جیمز بریڈ نے اس عمل کو سائنسی پیرائے میں پیش کیا.. ہپناسس ’’نیند‘‘ کی ایک ایسی قسم ہے جو کہ مختلف طریقوں سے طاری کی جا سکتی ہے...
شدت کے اعتبار سے یہ کیفیت نیند اور بیداری کے درمیان واقع ہوتی ہے...
یعنی ہپناٹزم کے زیراثر معمول کو نہ تو بیدار کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی وہ پوری طرح نیند میں ہوتا ہے...
ماہرین کے مطابق لاشعور ذہن کا وہ حصہ ہے جس کا تعلق یادداشت سے ہے۔ ہم جو دیکھتے سنتے ہیں وہ ہمارے لاشعور میں جمع ہوتا رہتا ہے...جب کہ شعور ہمہ وقت بیدار رہتا ہے...
نیند کے دوران شعور پُرسکون یا کافی حد تک بے عمل ہو جاتا ہے.. جبکہ لاشعور اس دوران اکثر بیدار ہو جاتا ہے...
عموماً لاشعور کی بیدار ی ہمیں خواب دکھاتی ہے...
جو باتیں ہمارے ذہن کے نہاں خانوں میں یا لاشعور میں محفوظ تھیں وہ شعور کے دبتے ہی ابھر آتی ہیں...
ہم کہ سکتے ہیں کہ شعور کے آرام کا نام ہی نیند ہے...
ہپناٹزم میں مختلف طریقوں سے معمول کے شعور کو سلا کر اس کے لاشعور کو بیدار کیا جاتا ہے...
ہپناٹزم کی بنیاد ایما یا ترغیب پر ہوتی ہے...
ہپناٹزم کا استعمال مختلف بیماریوں کا علاج کرنے کے لیے کیا گیا اور آج بھی محدود پیمانے پر یہ سلسلہ جاری ہے...
اس طریقہ علاج کو ہپنوتھراپی کہتے ہیں...
اس میں معمول کو آرام دہ جگہ پر آرام دہ حالت میں رکھ کر عامل اس کے شعور کو غافل کرتا ہے...
اس کام کے لیے ترغیب کا استعمال ہوتا ہے...
معمول کو بار بار عامل یقین کے ساتھ کہتاہے کہ تمہیں نیند آ رہی ہے، تم سونے والے ہو، تمہاری آنکھیں بھاری ہو رہی ہیں، تم سو رہے ہو...
اسی طرح کے اور بھی طریقے ہیں، جن کے نتیجے میں معمول پُرسکون ہو جاتا ہے اور نیند کی کیفیت میں چلا جاتا ہے...اس کیفیت کو ٹرانس کہتے ہیں...
ایسے میں معمول کے شعور کا بڑا حصہ غفلت میں چلا جاتا ہے...
اس حالت میں جب اس کو کسی بات کی ترغیب دی جاتی ہے تو اس کا ذہن بلا کسی تردید یا مخالفت کے اسے مان لیتا ہے...
اس طرح یہ بات اس کے ذہن میں گھر کر جاتی ہے اور بیداری کے بعد بھی وہ اس پر عمل کرتا ہے..
اسی وقت انٹرکام کی گھنٹی بجی..
میں نے رسیور اٹھایا تو بھاتی کی اواز سنائی دی..
سر مس رینا ملہوترہ اچکی ہیں اور منتظر ہیں..
ٹھیک ہے بھیج دو..
میں نے کتاب ایک طرف رکھ دی..
چند لمحوں بعد کمرے میں ایک اپسرا داخل ہوئی..
دراز قد, کھلی زلفیں, گندمی رنگت, جھیل سی انکھیں, گلابی ہونٹ, کشادہ پیشانی, سیاہ ساڑھی اور مختصر بلائوز, کانوں میں جگماتے موتیوں کے اویزے..
بلاشبہ وہ حسن کا شاہکار تھی..
میں کرسی پر ساکت بیٹھا اسے دیکھتا رہ گیا..
0 Comments