میں نے انسانی قوم میں سے کسی کو اتنا حسین کم ہی پایا تھا..
رینا چلتی ہوئی میرے سامنے کرسی تک اگئی اور مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو جیسے میں چونک کر اسکے حسن کے سحر سے ازاد ہوا..
میں احتراما کھڑا ہوا اور اس کے ہاتھ کو نرمی سے تھام کر روایتی انداز میں بوسہ دے کر چھوڑ دیا..
یقینا رینا اپنے حسن کی تباہ کاری سے واقف تھی اور اس وقت اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی..
تشریف رکھئے پلیز میں نے اسے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اس کے بیٹھنے کے بعد اپنی کرسی پر بیٹھ گیا..
لگتا ہے اپ نے کبھی کوئی عورت نہیں دیکھی رینا شرارت سے کھلکھلائی تو اس کے حسین دانت موتیوں کی طرح جھلملانے لگے..
نہیں..عورتیں تو بہت دیکھیں ہیں مگر اپسرا دیکھنے کا اتفاق پہلی بار ہوا ہے ناں تو تاب حسن نے جیسے سکتہ طاری کردیا..
ہاہاہاہا..رینا ہنسی..اپ باتوں کے بھی جادوگر ہیں..اسکی بولتی انکھوں میں پسندیدگی تھی..
نہیں بس کہا ناں یہ سب اپ کےحسن و جمال کی کرشمہ سازی ہے الفاظ خودبخود تعریف کا روپ دھار لیتے ہیں..میں نے مسکراتے ہوئے کہا..
امد کا مقصد نہیں پوچھیں گے رینا نے ادا سے کہا..
کوئی دیوی یا اپسرا جب اپ کے غریب خانے کو رونق بخش دے تو اس سے امد کا مقصد پوچھنا میری نظر میں بدذوقی ہے..
اس سے کہیں بہتر ہے میں اپنی خوش نصیبی پر غرور کروں..
اپ واقعی الفاظ کے جادوگر ہیں..رینا کے چہرے پر مسکراہٹ تھی..
میں کچھ مسائل کا شکار ہوں..رینا ہچکچاتے ہوئے گویا ہوئی..
میں پوری توجہ سے سن رہا ہوں اپ کی بات..
میرے گھر میں جنات موجود ہیں..رینا نے اپنی طرف سے انکشاف کیا..
میں مسکرا کر رہ گیا..
اب اسے کیا بتاتا اور سمجھاتا کہ وہ اس وقت بھی ایک جن زاد سے ہی مخاطب ہے..
اپ شاید میری بات کو مذاق سمجھ رہے ہیں..
نہیں نہیں..بالکل بھی نہیں..میری مسکراہٹ کی وجہ کچھ اور تھی اپ بات مکمل کیجئے پلیز..
کیا اپ یقین کریں گے میری عمر چالیس سال ہے..
اس بار میں واقعی حیرت زدہ رہ گیا..
اس کے چہرے, جسم اور اٹھان سے وہ کسی صورت بھی اٹھائیس تیس برس سے زیادہ نہیں لگتی تھی..
یہ واقعی حیرانگی کی بات ہے اپ اس سے ادھی عمر کی بھی نہیں لگتیں میں نے حقیقت میں حیرانگی کا اظہار کیا..
خیر اب ایسا بھی نہیں رینا نے ایک ادا سے اپنی زلفوں کو چہرے سے ہٹایا جو چاند سے اٹکھیلیاں کر رہی تھیں..
ایسا ہی ہے یقین کرلیں..میں نے مسکراتے ہوئے کہا..
اچھا سنیں ناں..
جی جی میں سن رہا ہوں..
میں کہ رہی تھی کہ میرے گھر میں جنات ہیں..
میری شادی کو بیس برس ہوگئے ہیں اور میرے پتی بے انتہا دولت مند ہیں مگر ہم لوگ ابھی تک اولاد سے محروم ہیں..
اپ کو جنات کے وجود کا احساس کیسے ہوا اور ان سے اپ کو کیا پریشانی ہے..میں نے سنجیدگی سے رینا سے سوال کیا..
وہ کوئی مرد جن ہے اور..اور..شاید.. مجھ پر عاشق ہے..رینا نے جھجکتے ہوئے کہا..
رینا نے میری طرف دیکھا مگر میں سنجیدگی سے اس کی بات سن عہا تھا تو اس کا حوصلہ بڑھا..
میرے پتی اپنے بزنس کے سلسلے میں زیادہ تر ملک سے باہر رہتے ہیں..بلکہ یوں کہ لیں وہ باہر ہی رہتے ہیں یہاں وہ بس چھٹیاں منانے اتے ہیں کبھی کبھار چند دن کے لئے..
تو اپ اپنے پتی سے خوش نہیں..میں نے سوال کیا..
خوشی کیا ہوتی ہے..اگر اسائشات, دولت, نوکر چاکر خوشی ہے تو دنیا کی ہر نعمت مجھے میسر ہے..
مگر عورت کو پیسے اور اسائشات سے زیادہ محبت, کئیر اور عزت کی ضرورت ہوتی ہے..
اگر یہ چیزیں ناں ہوں تو شاید دنیا کی کوئی اسائش اسے خوشی نہیں دے سکتی..رینا بات کر کے خاموش ہوگئی..
یعنی اپ کو اپنے شوہر کی طرف سے پیار, محبت, کئیر, عزت نہیں ملتی..
نہیں..ہمارا تعلق میاں بیوی کا ہے اور رشتہ بھی مگر ہمارے درمیان بہت فاصلہ ہے ذہنی بھی اور حقیقی بھی کہ ان بیس برسوں میں شاید اگر کل وقت دیکھیں تو چند مہینے بھی انھوں نے میرے ساتھ نہیں گزارے..
اور اس کی وجہ..میں نے پھر سوال کیا..
پیسہ اکثر مردوں کو بگاڑ دیتا ہے یہی ان کا بھی مسئلہ ہے باہر نت نئے کھانے اور ڈشیں دستیاب ہوں تو گھر کو کھانا دال برابر ہی ہوتا ہے شاید..
اور یہ جن والا معاملہ کیسے شروع ہوا..
پچھلے مہینے وہ ائے ہوئے تھے ایک ہفتے کے لئے تو میں نے ان سے بوریت کی شکایت کی..
انھوں نے اس کا حل یہ کیا کہ مجھے اس علاقے میں بنگلا لے دیا کہ جب بوریت ہو ساحل سمندر پر چلی جایا کروں اور دل بہلا لیا کروں..
میرا نیا گھر جو ہے اس میں ایک بہت بڑا لان ہے جہاں چند درخت بھی ہیں..
میری خواب گاہ اوپری منزل پر ہے اور اس کی کھڑکی اس لان کی طرف کھلتی ہے..
رینا کیا اپ رات کو بے لباس سونے کی عادی ہیں..
جی ہاں..
میرے سوال پر رینا کا چہرہ حیاء سے سرخ ہوگیا اور اس نے پلکیں جھکا کر مختصر جواب دیا..
ٹھیک ہے یقینا کسی دن کھڑکی کھلی رہ گئی ہوگی اور وہ جن یا جو بھی کوئی مخلوق ہے اس نے اپ کو دیکھا اور اپ کے حسن کا دیوانہ ہوگیا میں نے مسکراتے ہوئے کہا..
رینا نے پلکیں اٹھا کر میری طرف دیکھا مگر خاموش رہی شرم اورحیاء اس کے چہرے سے عیاں تھی..
ٹھیک ہے..اب یہ بتائیں کہ وہ جن کیا اپ کو دکھائی دیتا ہے یا اس کی کن باتوں اور حرکتوں سے اپ پریشان ہیں...
نہیں وہ دکھائی نہیں دیتا مگر اس کی موجودگی محسوس ہوتی ہے مجھے اور یہ وہم نہیں حقیقت ہے..
مجھے اپنے بستر پر اپنے برابر میں وہ لیٹا ہوا محسوس ہوتا ہے..
اس کے علاوہ بھی بہت دفعہ اس نے مختلف طریقوں سے مجھے اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے..
مطلب جیسے میں کمرے سے باہر جانا چاہوں تو اکثر دروازہ خود کھل جاتا ہے..
میری بکھری ہوئی چیزیں سمٹ جاتی ہیں..
میرا بیڈ بہت بڑا اور جہازی سائز کا ہے میں اس کے ایک طرف لیٹتی ہوں مگر ہر رات دوسری طرف بھی شکنیں موجود ہوتی ہیں جیسے وہاں کوئی لیٹا ہو..
کوئی ایک بات نہیں بیسیوں ایسے واقعات اور باتیں ہیں..
کیا اس نے کبھی اپ کو چھوا یا ٹچ کیا..میں نے سوال کیا...
ہاں..میں اس رات سوئی ہوئی تھی..اسی...حالت..میں....مطلب..وہ..یعنی..چادر لی ہوئی تھی صرف..جو شاید نیند میں ہٹ گئی ہوگی..کھڑکی بھی کھلی تھی..رینا کے چہرے پر دوبارہ حیاء کے تاثرات ابھر ائے..
اچانک مجھے محسوس ہوا کہ کوئی مرد مجھ پر لیٹا ہوا ہے..اس کی سانسیں میں نے اپنے چہرے پر محسوس کیں..
دہشت اور خوف سے جیسے میں سکتے کی حالت میں اگئی..
جب اس کے ہاتھ مجھے جسم پر محسوس ہوئے تو میں نے زوردار اواز سے چیخنا چلانا شروع کردیا..
میری اواز سن کر نوکر اگئے اور دروازہ بجانا شروع کردیا..
ان کے اتے ہی وہ بوجھ مجھ پر سے ہٹ گیا..
میں نے جلدی سے اٹھ کر دروازہ کھولا..
اس دن کے بعد سے میں ویسے نہیں سوئی اور خواب گاہ بھی تبدیل کرلی..
تب سے اب تک اس نے مجھے چھوا نہیں مگر اور دوسرے طریقوں سے وہ مجھے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے..رینا تفصیل بتا کر خاموش ہوگئی..
اسی وقت میرے کمرے کا دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور رینا کی انکھوں میں خوف کے تاثرات ابھر ائے..
میں جو رینا کی باتوں کے سحر میں کھویا ہوا تھا ایک لمحے کو مجھے بھی جھٹکا لگا..
مگر یہ ملازم تھا جو کافی لے کر ایا تھا..
رینا نے اسے دیکھ کر سکون کا سانس لیا..
ملازم نے کافی ہمارے سامنے سرو کی اور کمرے سے باہر چلا گیا..
مجھے رینا کی بات سن کر سمجھ نہیں ارہی تھی کہ اس کے مسئلے کا کیا حل کروں..
اگر میرے پاس شکتیاں موجود ہوتیں تو میں اسے اس جن یا جو بھی غیر مرئی مخلوق تھی اس سے نجات دلا دیتا..
مگر صرف نادیدہ ہونے کی شکتی سے میں کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا..
اپ میری سہائتا کریں گے ناں..رینا نے پر امید نظروں سے مجھے دیکھا...
ہاں ضرور..میں نے مسکراتے ہوئے کہا..
کیسے..رینا نے سوال کیا..
مجھے خود انا پڑے گا رینا وہاں اور دیکھنا پڑے گا اس معاملے کو..
حقیقت میں میرے پاس اس سارے معاملے کا کوئی حل نہیں تھا مگر میں رینا کو انکار نہیں کرسکتا تھا..
تو اج کیوں نہیں..رینا نے کہا..
نہیں مجھے ایک دن کا وقت دیں مجھے کچھ تیاری کرنی ہوگی..
چلیں ٹھیک ہے..رینا اٹھ کھڑی ہوئی..
میں بھی اس کے احترام میں اٹھ گیا..
رینا نے پرس سے ایک کارڈ نکالا اور میز کے پیچھے سے گھوم کر میرے نزدیک اگئی اور کارڈ میری طرف بڑھایا...
وہ اتنا نزدیک تھی کہ اس کی سانسوں کی مہک مجھے بے چین کرنے لگی..
اس کی انکھوں میں امید اور پیاس کا دریا بہ رہا تھا..
مجھے نراش مت کیجئے گا..
میں منتظر رہوں گی اپ کی..
اور اپ کی فیس..رینا نے میری انکھوں میں دیکھ کر سوال کیا..
اس کا چہرے مجھ سے چند انچ کے فاصلے پر تھا اور میں اس کے بدن کی حدت سے پگھلتا جارہا تھا..
اپ نے اپنے حسن کا جلوہ دکھا کر انکھوں کو سیراب کردیا ہے اپ سے فیس طلب کر کے میں شرمندہ نہیں ہونا چاہتا..میں بے بات بنائی..
حقیقت میں مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ میں اس کا مسئلہ حل کرپائوں گا یا نہیں اور اس کام کی فیس ہوتی کتنی ہے..
چلیں..اپ کو اپکے کام کی فیس بمع سود ادا کردوں گی..رینا نے قاتل نگاہوں سے مجھے دیکھا جیسے کوئی بھوکی شیرنی اپنے شکار کو دیکھتی ہے..اور مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھا دیا..
میں نے اس کے ہاتھ تھام کر چوم لیا اور رینا ایک ادا سے چلتی ہوئی کمرے سے رخصت ہوگئی..
رینا کے جانے کے بعد بھاتی کمرے میں داخل ہوئی اور میرے سامنے کرسی پر بیٹھ کر کھوجتی نظروں سے مجھے دیکھنے لگی..
کیا دیکھ رہی ہے بھاتی..
کچھ زیادہ ہی دیر نہیں لگا دی تم نے اس کا "مسئلہ" حل کرنے میں..
بھاتی کے لہجے میں حسد جھلک رہا تھا..
یقینا اسے کسی حسین عورت کے ساتھ میری موجودگی برداشت نہیں ہورہی تھی...
مگر وہ داوا کے ہاتھوں مجبور تھی یہ اسی کا بچھایا ہوا کھیل تھا جس کا مقصد بھی ابھی میں نہیں جانتا تھا..
ارے وہ..بیچاری پریشان تھی..اور دیکھ یہ داوا نے ہی بولا ہے ناں..
ہاں تو بڑا فرمانبردار داوا کا..بھاتی نے جل کر جواب دیا..
پھر کیا کرتا بھگا دیتا اسے..میں نے ناراضگی دکھائی..
کیا مسئلہ تھا اس کا..بھاتی نے موضوع بدل دیا..
اس پر کوئی جن بھوت عاشق ہوگیا ہے اس سے پیچھا چھڑوانا چاہتی ہے وہ..
ہاں..ایک جن سے پیچھا چھڑوا کر دوسرے جن کے چکر میں اجائے گی جانتی ہوں میں سب..
ارے نہیں یار..بے فکر ہوجا..میں..
مجھے کوئی فکر نہیں تو بے شک دم ہلاتا ہوا اسکے پیچھے جا..بھاتی بھری ہوئی تھی..
اچھا چھوڑ ناں اس کو...تو ساڑھی میں غضب ڈھا رہی ہے اج...
یقین کر لے میرا دل جیسے بے قرار ہورہا ہے..
میں نے مکھن لگایا..
بس رہنے دے تو..
بھاتی نے کہا مگر تعریف سن کر اس کا پارہ نیچے اگیا تھا..
مردوں کی تو فطرت ہوتی ہے ہر عورت کو دیکھ کر رال ٹپکانے لگ جاتے ہیں..
ارے نہیں بھاتی..تیرا اس سے کیا مقابلہ..
تیری خوبصورتی کے سامنے وہ پانی بھرتی ہے..
بس پیسہ ہے ناں اس سے اپنا رنگ روپ سنبھالا ہوا ہے ورنہ چالیس سال کی بڑھیا ہے وہ..
میں نے بھاتی کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے دھڑلے سے جھوٹ بولا جہاں میری بات سن کر چراغ سے روشن ہوگئے تھے..
سچ کہ رہا ہے تو..بھاتی نے میری طرف دیکھا..
مجھے جھوٹ بول کر کیا ملے گا بھاتی..
تو جنگلی گلاب ہے جس کی خوبصورتی اور حسن انمول ہے اور وہ شہر کی مصنوعی رنگ روپ والی عورت..
اس سے تیرا کیا مقابلہ..
بہت دیر تک میں بھاتی کو رام کرتا رہا اخرکار اسے میری باتوں کا یقین اگیا اور وہ خوش ہوگئی..
اگر میں اسے یہ بتاتا کہ میں رینا کے گھر جائوں گا تو وہ ہتھے سے اکھڑ جاتی..
اس لئے بہتر تھا جو کروں خاموشی سے کروں بھاتی سے نظر بچا کر..
مجھے بھاتی کا کوئی ڈر نہیں تھا مگر میں ماحول خراب نہیں کرنا چاہتا تھا اور مجھے فی الحال اس کی ضرورت تھی..
اگلی شام کو میں نے رینا کا کارڈ نکالا اور اسے کال ملائی..
رسمی سلام دعا کے بعد میں نے اسے رات نو بجے انے کا کہا اور اس سے ایڈریس سمجھ لیا..
سورج غروب ہونے سے پہلے میں بھاتی سے کام کا بہانہ کر کے گھر سے باہر نکل ایا اور پیدل رینا کے بنگلے کی طرف چل پڑا جو ہمارے گھر سے دس پندرہ منٹ کی دوری پر تھا...
راستے میں ایک مناسب جگہ دیکھ کر میں نے منتر پڑھا اور نادیدہ ہوگیا...
کچھ دیر بعد میں رینا کے بنگلے کے گیٹ سے اندر داخل ہوچکا تھا..
گیٹ سے اندر تک درمیان میں وسیع و عریض لان موجود تھا جہاں دو تین گھنے پیڑ موجود تھے...
میں نادیدہ حالت میں چلتا ہوا اندر داخل ہوگیا اور مختلف کمروں میں دیکھتا رہا اخرکار مجھے رینا کی خواب گاہ مل گئی..
نادیدہ حالت میں میرا وجود سائے کی طرح تھا اور میں اسانی سے کسی بھی دیوار یا دروازے سے گزر سکتا تھا..
میں رینا کی خواب گاہ میں داخل ہوا تو ٹھٹک کر رہ گیا..
رینا اپنی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی چہرے پر کوئی کریم لگا رہی تھی اور اس کے بستر پر ایک نوجوان دراز تھا جو رینا کیطرف وارفتگی سے دیکھ رہا تھا...
جن زاد
قسط نمبر : 13
تحریر : ارشد احمد
میں جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا وہ نوجوان اچانک چونک گیا اور بیڈ سے نیچے اتر کر کھڑا ہوگیا..
اس کی نظروں کا رخ میری طرف ہی تھا..
یقینا وہ مجھے نادیدہ حالت میں بھی دیکھ پارہا تھا..
کون ہو تم...اس نوجوان نے سوال کیا..
میں نے پلٹ کر رینا کی طرف دیکھا مگر شاید کوئی نادیدہ حالت میں ہو تو اس کی اواز سننا بھی کسی ادم زاد کے لئے ممکن نہیں ہوتا...ا
س لئے وہ اس سب سے بے خبر چہرے پر کریم کا مساج کرنے میں مصروف تھی..
اپنے علم سے جان لو میں کون ہوں..
مگر تم بتائو تم کون ہو اور اس عورت کو کیوں پریشان کر رہے ہو...
اس نوجوان نے چند لمحوں کے لئے انکھیں بند کر کے کھولیں تو اس کے چہرے پر حیرانگی کے تاثرات تھے..
تم سمانتن قبیلے کے مرحوم سردار کے بیٹے ہو..
ہاں..میں نے مختصر جواب دیا..
کیا تم اپنے قبیلے کے بارے میں جانتے ہو..
تمھارے باپ کے مرنے کے بعد وہاں کیا ہوا..
نہیں میں کبھی اپنے قبیلے نہیں گیا..میں نے جواب دیا..
تم کون ہو..میں نے اپنا سوال دوہرایا..
میرا نام ترکن ہے میرا تعلق تمھارے پڑوسی قبیلے میغر سے ہے..
یقنی تم جن زاد ہو..
ہاں میں جنوں میں سے ہوں..ترکن نے جواب دیا..
میرا علم بتاتا ہے تم نے اپنی شکتیاں کھو دی ہیں اور تم اپنے اصل روپ میں انے پر بھی قادر نہیں ہو..
ترکن چلتا ہوا میرے قریب اچکا تھا...
تم یہاں کیا کر رہے ہو اور اس عورت کو کیوں پریشان کر رہے ہو..میں نےاس کی بات کو اگنور کر کے ذرا غصے سے سوال کیا..
مجھے یہ عورت پسند اگئی ہے..ترکن نے وارفتگی سے رینا کو دیکھا..
یہ عورت شادی شدہ ہے..میں نے ترکن سے کہا..
ہاں مگر تمھارے پاس شکتیاں ہوتیں تو جان لیتے کہ اتنی پوتر اور معصوم نہیں جتنا تم اسے سمجھ رہے ہو..
کیا مطلب..میں نےحیرانگی سے سوال کیا..
اس کو اپنی زندگی میں انے والے مردوں کی تعداد بھی یاد نہیں ہوگی..
ہر ایک مرد سے صرف چند دن میں یہ اکتا جاتی ہے اس کے بعد کوئی اور مگر پھر بھی کوئی پچھلا مرد بھی دوبارہ اجائے تو یہ اسے بھی نراش نہیں کرتی..
مجھے یقین نہیں ارہا..میں نے بے یقینی سے ترکن کو دیکھا..
کہا ناں تمھاری شکتیاں ہوتیں تو تم یہ سب باتیں جان لیتے..ترکن نے کہا..
تو تم انسانی روپ میں اس کے سامنے اجائو اگر یہ تمھیں پسند کرلے تو تمھارا کام ہوجائے گا پھر پریشان کرنے کا مقصد..
ٹھیک ہے...میں تم سے الجھنا نہیں چاہتا..اگر تمھارے بتائے ہوئے طریق پر عمل کر کے بھی اس نے مجھے پسند ناں کیا پھر..
جب بقول تمھارے یہ ہر کچھ دن بعد مرد بدلنے کی عادی ہے تو پھر پسند ناں انے کا کیا سوال اور دیکھنے میں تم ویسے ہی وجیہ اور خوبصورت ہو پھر کم عمر بھی..
تم یہیں کمرے میں رکو میرا انتظار کرو..
میں اسے کہ کر کمرے سے نکل ایا اور واپس گیٹ سے باہر اکر نادیدہ روپ ختم کر کے میں نے بیل بجا دی..
چوکیدار نے میرا نام سن کر مجھے اندر لے جاکر ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا..
کچھ دیر میں رینا بجلیاں گراتی ہوئی نمودار ہوئی اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی..
زہے نصیب..اپ..
رینا..میں نے اس کی بات کاٹ دی..
مجھے اپنی خواب گاہ میں لے چلو..
میں اس کے بارے میں حقیقت جان کر اس سے بیزار ہورہا تھا اب..
رینا نے حیرانگی سے مجھے دیکھا..
ہاں وہاں بھی چلیں گے..پہلے کچھ خاطر تواضع تو ہوجائے..
نہیں رینا..میں جس کام سے ایا ہوں وہ مکمل کر لوں پلیز..
رینا نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں مجھے دیکھا..
ٹھیک ہے اجائیں..
میں رینا کی ساتھ چند لمحوں بعد خواب گاہ میں داخل ہوچکا تھا..
ترکن مجھے نظر نہیں ارہا تھا مگر مجھے یقین تھا وہ میرا منتظر ہوگا...
کمرے میں پہنچ کر رینا نے میرے قریب انا چاہا..
میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا..
رینا..تمھاری بات درست ہے تمھارے گھر میں ایک جن زاد موجود ہے جو تم پر عاشق بھی ہے کیا تم اسے سوئیکار کرو گی..
اس بار رینا کی انکھوں میں حیرانگی کے ساتھ خوف بھی نظر ایا..
کیا مطلب ہے..جن..کیسی باتیں کر رہے ہیں اپ..اور سوئیکار کرنے کا کیا مطلب..میں شادی شدہ ہوں اور..ایک جن سے..مطلب..میں..
رینا..میں نے پھر اس کی بات کاٹ دی..
تم شادی شدہ ضرور ہو مگر بہت سے مردوں کو اپنا پتی بنا چکی ہو..میں تمھاری تمام باتیں اور ہر راز جانتا ہوں..
جن انسانی روپ میں اسکتے ہیں اور ہر روپ بدل سکتے ہیں میرا نہیں خیال تمھیں کسی مرد کو سوئیکا کرنے میں کوئی پریشانی کا سامنا ہو..
ترکن..میں نے اواز دی..
اگلے ہی لمحے ترکن نمودار ہوگیا..
رینا کی انکھیں حیرت اور خوف سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں..
ک..کون..کون ہو تم..رینا پیچھے ہٹتی ہوئی دیوار سے جا لگی..
رینا کی جگہ کوئی بھی ہوتا کسی بھی انسان کے لئے نادیدہ شکتی ناقابل یقین بات تھی..
ترکن اور میں رینا کی طرف بڑھے مگر رینا کے خوف میں مزید اضافہ ہوگیا..
وہ تیورا کر گری اور بیہوش ہوگئی...
خوف انسانوں میں پایا جانے والا وہ نفسیاتی رویہ ہے...
جو کسی خطرے سے آگاہیت کے سبب ذہن میں پیدا ہوتا ہے...
اور اپنے بنیادی ترین درجے میں ہونے والے رد عمل کے طور پر فرار یا خطرے سے خود کو چھپانے کی خواہش پیدا کرتا ہے..
حد سے زیادہ ذہنی دبائو کی وجہ سے رینا بیہوشی کی کیفیت میں چلی گئی تھی..
میں نے اور ترکن نے رینا کو اٹھا کر بیڈ پر لٹا دیا..
کافی دیر کی کوششوں سے رینا واپس ہوش میں ائی مگر اس کی انکھوں میں خوف بدستور موجود تھا..
بہت مشکل سے اور بہت دیر بعد ہم دونوں مل کر رینا کو پرسکون کر پائے..
اگلے ادھے گھنٹے بعد رینا سب کچھ بھلا کر ہم سے گپ شپ میں مصروف تھی...
میں حیرانگی سے اسے دیکھ رہا تھا کہ یہ وہی رینا ہے جو کچھ دیر پہلے ترکن کو نادیدہ حالت سے ظاہر ہوتا دیکھ کر بیہوش ہوگئی تھی..
رینا ابھی تک بستر پر تھی اس کے ایک طرف ترکن اور ایک طرف میں تھا..
رینا..تم نے میری بات پر غور کیا..
کیا تم ترکن کو سوئیکار کرنے کے لئے تیار ہو..میں نے سوال کیا..
رینا نے ایک ہاتھ سے میراہاتھ تھاما اور دوسرے ہاتھ میں ترکن کا..
کیا تم دونوں مل کر مجھے سوئیکار نہیں کر سکتے رینا نےباری باری ہم دونوں کو دیکھا اور میں حیرت سے اسے دیکھتا رہ گیا..
جن زاد
قسط نمبر : 14
تحریر : ارشد احمد
رینا..کیا تم پاگل ہو..
یہ کیسے ممکن ہے..میں نے الجھ کر کہا..
میں اپنے پتی کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہوں اور ہر عورت کو اپنی زندگی ازادانہ اپنی مرضی سے گزارنے کا حق ہے..
یعنی تم اپنے پتی سے طلاق لے کر شادی کرنا چاہتی ہو..
وہ بھی ہم دونوں سے بیک وقت..
یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے...
میں نے حیرانگی سے کہا..
کیوں ممکن نہیں ہوسکتا..
تعدد شوہری ایسی شادی ہوتی ہے جس میں ایک بیوی کے کئی شوہر ہوتے ہیں..
یہ قدیم زمانے میں برصغیر اور تبت کی اقوام میں عام رائج تھی..
گو یہ اب کم ہوچکی ہے مگر اب بھی لداخ، بھوٹان، نیپال اور ہمالیہ کی قوموں میں عام ملتی ہے..رینا نے کہا..
کیا بکواس ہے..ایسا کیسے ہوسکتا ہے..تم جھوٹ بول رہی ہو..میں نے جواب دیا..
تمھارے کہنے سے سچ جھوٹ نہیں بن جائے گا..
مہابھارت میں پانچ پانڈو کی بیوی دروپدی اسی شادی کی مثال ہے..
میسور کے ٹیپوسلطان نے اپنا آخری فرمان 1788ء میں جاری کیا...
جس کہ مطابق ایک عورت کو جو دس شوہر تک کرتی تھی اس کی ممانعت کی گئی..
مڈغاسکر اور ملایا کے بعض حصوں اور بحرالکاہل کے جزیروں کی عورتیں ایک سے زیادہ مردوں کے ساتھ شادیاں کر سکتی ہیں...
اسکیمو اور جنوبی امریکا کی عورتیں بھی تعدد شوہری کی قائل ہیں...
تبت اور ہندوستان کے بہت سے پرانے قبائل میں بھی تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ یہ رائج ہے...
تاریخ پڑھو تعدد شوہری طریقہ پنجاب کے کنیٹ، جاٹ، راجپوت اور ٹھاکروں میں بھی رائج تھا..
تبت، لداخ اور ڈیرہ وون کی پہاڑی قوموں میں صرف بڑا بھائی اپنی شادی کرتا ہے...
یہ عورت تمام بھائیوں کی بیوی بن جاتی ہے...
ان کا کہنا ہے اس سے اتفاق قائم رہتا ہے اور زمین بھی تقسیم نہیں ہوتی ہے اور تمام بھائی ایک بیوی پر مطمئن رہتے ہیں...
یہی رواج تبت اور بھوٹان میں بھی ہے..
مالابار اور ٹرانکور میں قوم نیر بالادت اور اسی طرح ساحلی علاقہ جو ان سے ہٹ کر ہے بونٹ اور کورگ ان میں بھی ہر عورت کے کئی شوہر ہوتے تھے..
نیل گری کے ٹوڈا، نائز اور کرمبا قوم میں جس شخص کے حقیقی بھائی نہیں ہوں...
تو اپنے ماموں زاد، خالو زاد، پھوپازاد بیوی میں شریک ہوجاتے ہیں..
تمھیں یہ عجیب لگ رہا ہوگا مگر میں ایسی بیسیوں اور مثالیں دے سکتی ہوں..
رینا کی باتیں سن کر میں اور ترکن کے منہ کھلے رہ گئے تھے..
اتنے مستند حوالوں کے ساتھ یقینا وہ جھوٹ نہیں کہ سکتی تھی..
رینا..حد ہے یار..کیا کہوں میں تمھیں..
تم اپنی پتی سے طلاق لے کر ایک جن سے شادی کرنے پر تیار ہو..بہت عجیب ہو تم..
نہیں ایک جن ایک انسان دونوں سے رینا کے چہرے پر بہت دیر بعد مسکراہٹ ائی..
میں بھی جن ہی ہوں..میں نے انکشاف کیا..
بکواس..اب تم کوئی نئی کہانی سنائو گے..رینا نے کہا..
اگلے ہی لمحے میں منتر پڑھ کر نادیدہ ہوگیا اور رینا کی چیخ نکل گئی..
ہائے بھگوان..یہ کیا ہورہا ہے میرے ساتھ..
لوگوں کو ایک جن نہیں ملتا میرے نصیب میں دو دو جن..
مجھے غصے کے باوجود رینا کی بات پر ہنسی اگئی اور میں منتر پڑھ کر دوبارہ ظاہر ہوگیا..
دیکھو رینا..
دکھائو ناں..رینا نے میری بات کاٹی..
بہت بیہودہ عورت ہو تم..میں حقیقت میں اس کے سامنے کنفیوز ہورہا تھا..
ابھی دیکھی کہاں بیہودگی تم نے رینا نے چٹخارہ لیا..
بکواس مت کرو..
میری نظر میں یہ بھی پاپ ہے کہ تم اپنی اسودگی کے لئے پتی سے طلاق لے کر کسی اور سے شادی کرو..
لو..جن کب سے پاپ اور پن کے چکروں میں پڑنےلگے...
اور میرا پتی صرف نام کا پتی ہے اس نے کبھی میرے حقوق اور فرائض کا خیال نہیں کیا..
تم کونسا وفاداری اور خلوص کے جھنڈے گاڑے بیٹھی ہو اگر اس نے نہیں خیال کیا تو تم نے خود کب کیا ہے تم بھی اس جیسی ہی ہو..میں نے برا سا منہ بنا کر کہا..
عورت خود سے بری نہیں ہوتی مرد اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ برائی کرے..رینا نے بے تکا جواز دیا..
تم اپنے بھونڈے اور غیر عقلی جواز اپنے پاس رکھو اور مجھ سے تو بالکل توقع مت رکھو کہ میں تم سے شادی کروں وہ بھی مشترکہ..
رہ گئی پتی سے طلاق لے کر ترکن سے شادی کی بات تو وہ تم جانو اور یہ جانے..
میں اپنی بات مکمل کر کے بستر سے اٹھ گیا..
ترکن..تم خود اپنے معاملات اس سے طے کرلو میں جارہا ہوں..
سنو..ترکن اٹھ کر میرے پاس اگیا..
بہت شکریہ تمھارا..ترکن نے کہا..
کس بات کا شکریہ..
میں تو ابھی تک ہضم نہیں کرپارہا جو کچھ اس نے کہا اور جو ہورہا ہے سب عجیب ہے..
اچھا ناں چھوڑ دو بس اب تم میں خود دیکھ لوں گا یہ سب..
یہ لو ترکن نے ایک انگوٹھی اپنی انگلی سے اتار کر میری طرف بڑھائی..
میں نہیں جانتا کہ تم کب اور کیسے اپنی شکتیاں واپس حاصل کرپائو گے...
مگر اس انگوٹھی کی مدد سے تم کسی کے بھی دل کا حال جان سکتے ہو...
کوئی بھی بات معلوم کر سکتے ہو یہ میری طرف سے تحفہ ہے دوستی کا..
رینا اوازیں دے رہی تھی مگر میں نے اس کی پرواہ نہیں کی..
شکریہ ترکن میں نے انگوٹھی اس کے ہاتھ سے لے کر پہن لی اور نادیدہ ہوکر کمرے سے باہر نکل ایا..
میری قسمت میرا ساتھ دے رہی تھی اپنی شکتیاں کھونے کے بعد بھی میں خالی ہاتھ نہیں تھا..
جن زاد
قسط نمبر : 15
تحریر : ارشد احمد
رینا واقعی بہت بیہودہ عورت تھی..
اس کا ظاہری حسن جس قدر تھا اندر سے وہ اس کے بالکل الٹ تھی..
میں خود کوئی پارسا نہیں تھا ناں ہی اس معاملے میں میرا کوئی غلط یا سہی کا نظریہ تھا..
مگر پھر بھی ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور رینا تمام حدیں پار کرکے عورت کے مقام سے بھی نیچے اچکی تھی..
ایسی عورتوں میں میرے لئے کوئی کشش نہیں تھی..
میں انسانی روپ میں شاید انسانوں ہی طرح سوچنے اور محسوس کرنے لگا تھا..
میری سوچ یہ تھی کہ اگر اپ کسی ایک شخص کو چاہیں تو اپ کو اسی شخص تک محدود رہنا چاہئے..
اگر کسی وجہ سے جدائی ہوجائے یا علیحدگی ہوجائے تو یقینا اپ کو دوسرا ساتھی چن لینا چاہئے..
اور پورے دل سے اور خلوص سے اس پر بھی اپ اپنی محبت نچھاور کردیں..
اگر ایک محبت ختم ہوجائے تو دوسری محبت ہمیشہ اس کی جگہ لے لیتی ہے..
اپنے جذبات اور سچائیوں کو کسی ایسے شخص کے لئے ضائع کرنا جو اس قابل ناں ہو سراسر بیوقوفی ہوتی ہے..
محبت کوئی ایسی چیز نہیں جو دوبارہ ناں ہو سکے یا زندگی میں ایک ہی بار ہو..
محبت صرف پسندیدگی کے حد سے بڑھ جانے کا نام ہے..
انسان غلط فیصلے کر سکتا ہے غلط شخص کو چن سکتا ہے تو ان فیصلوں کو وقت گزرنے سے پہلے درست کرلینا چاہئے..
میں شاید کچھ زیادہ ہی سوچنے لگا تھا رینا کے بارے میں..
میں نادیدہ حالت میں چلتا ہوا اپنے گھر کی طرف جارہا تھا..
رات کافی ہوچکی تھی میں گھر میں داخل ہوا تو بھاتی سو چکی تھی..
میں نادیدہ حالت سے اپنے روپ میں ظاہر ہوا اور کمرے میں اکر بستر پر لیٹ گیا..
میرے پاس نادیدہ ہونے کی شکتی پہلے سے تھی اور اب ترکن کی انگوٹھی کی وجہ سے میں کسی کے بھی دل کا حال جان سکتا تھا..
کسی بھی حال یا مستقبل کے معاملے کے بارے میں جان سکتا تھا..
میں نے ترکن کی انگوٹھی کو استعمال کرنے کا سوچا اور دل میں اپنے قبیلے کے بارے میں جاننے کا خیال لایا..
اگلے ہی لمحے میری نظروں کے سامنے میرے قبیلے کے مناظر گزرنے لگے..
سردار کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا سرداری سنبھالتا ہے اگر بیٹا موجود ناں ہو تو پھر سردار کا بھائی یا پھر قبیلے کے معتبر بزرگوں کے فیصلے سے سردار منتخب کیا جاتا ہے..
میرے باپ کے مرنے کے بعد چونکہ اس کا بیٹا یعنی میں زندہ تھا اور سرداری کا حقدار تھا اس لئے کسی اور کے سردار بننے کا سوال ہی ممکن نہیں تھا..
مگر میری غیر موجودگی میں قبیلے کے معاملات چلانے کے لئے ایک نائب سردار یعنی میرے چچا کو منتخب کیا گیا تھا جو تاحال نائب سردار کی حیثیت سے قبیلے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھا..
مگر قبیلے والے اس وقت پریشانی کا شکار تھے...
ہمارے قبیلے کا ایک نوجوان ایک اور قبیلے کی شادی شدہ جن زادی کو لے کر غائب ہوگیا تھا...
اس نوجوان نے کوئی ایسا عمل سیکھا تھا جس سے دونوں قبیلوں کے تمام لوگ اس نوجوان جوڑے کو تلاش کرنے سے قاصر تھے..
اس معاملے میں کشیدگی اتنی بڑھ گئی تھی کہ دونوں قبائل جنگ پر امادہ ہوچکے تھے..
میں نے دل میں بھاتی کا تصور کیا تو مجھ پر حیرت انگیز انکشافات ہوئے..
ترکن کا تحفہ انمول تھا..
بھاتی پارسائی کا ناٹک کر رہی تھی اور حقیقت میں داوا کی رکھیل تھی اور اس کے بہت سے دھندوں کی شریک مگر اس کا دل داوا سے بھر چکا تھا..
اب اس کا مجھ پر دل ایا ہوا تھا اور وہ داوا سے پیچھا چھڑوانا چاہتی تھی اور اس کے لئے وہ مجھے استعمال کرنا چاہ رہی تھی..
یعنی مجھ سے وہ اپنی حوس بھی پوری کرتی اور داوا سے بھی پیچھا چھڑوا لیتی..
مجھ پر اچانک سے بیزاریت سوار ہوگئی..
ہر جگہ دھوکہ..
ہر جگہ فریب..
حسین چہروں کے پیچھے کالک..
انسان کا ظاہری روپ اور اس کا باطن دو الگ چیزیں ہیں..
شاید اگر سب لوگ ایک دوسرے کا باطن جان سکیں تو دنیا کا ہر شخص ہی دوسرے سے نفرت کرنے لگے..
مجھے کیا ضرورت تھی بھاتی اور داوا جیسے لوگوں کی..
اور اب نادیدہ ہوجانے والی شکتی کے بعد تو ناں ہی داوا مجھے تلاش کر سکتا تھا ناں ہی میرا کچھ بگاڑ سکتا تھا..
ایک لمحے کو دل میں خیال ایا کہ داوا کے بارے میں بھی جان لوں..
مگر مجھے علم تھا وہاں بھی مجھے یہی گندگی اور غلاضت ملے گی اور کچھ مزید قابل نفرت پہلو میری نظر میں ائیں گے..
میری کوئی قابل ذکر یا ضروری چیز یہاں موجود نہیں تھی..
میں منتر پڑھ کر نادیدہ ہوا اور بھاتی کے کمرے سے کچھ کرنسی نوٹ لے کر گھر سے نکل ایا..
رات کا ایک بج رہا تھا اور اس وقت سڑکوں پر سناٹا تھا..
میں چلتا ہوا سڑک پر ایا دور ایک ٹیکسی کھڑی تھی..
میں نے خود کو ظاہر کیا اور ٹیکسی کی طرف بڑھ گیا..
ٹیکسی والے کو میں نےکسی ہوٹل کی طرف چلنے کو کہا اور پچھلی سیٹ پر دراز ہوگیا..
بابو جی..کس ہوٹل میں جائیں گے..ٹیکسی والے نے ٹیکسی اسٹارٹ کر کے مجھے پکارا..
کسی بھی اچھے ہوٹل میں بس رات گزارنی ہے..
صرف رات گزارنی ہے تو ساحل پر ہٹ بھی مل سکتا ہے سارے لوازمات کے ساتھ..
کیا مطلب لوازمات..
میرا خیال ہے اپ یہاں نئے ائے ہو جی..
مطلب شراب, شباب جو چاہیں حاضر ہوجائے گا..
چلو ٹھیک ہے..ہٹ کی طرف لے لو..
ایک گھنٹے بعد میں ایک خوبصورت سجے سجائے ہٹ میں موجود تھا جو کافی مہنگا تھا مگر مجھے پیسوں کی کیا پرواہ..
ٹیکسی ڈرائیور کھانے اور لڑکی کا انتظام کرنے کے لئے جاچکا تھا..
میں بستر پر دراز اپنی سوچوں میں الجھتا رہا..
مجھے قبیلے جانا چاہئے یا نہیں..
اگے زندگی کو کس طرح گزارا جائے..
اپنی شکتیاں کیسے واپس حاصل کی جائیں..
اس بھشکو کو تلاش کر کے انتقام لینا ہے..
اچانک میرے ذہن میں بجلی سی کوندی..
اپنی شکتیاں میں کیسے واپس حاصل کر سکتا ہوں..
میں نے انگوٹھی کی مدد سے جاننے کی کوشش کی..
میری نگاہوں کے سامنے ایک ناگن کا چہرہ ابھرا..
چہرہ اس لئے کہ اس کا چہرہ انسانی تھا اور باقی جسم ناگن کا..
اس ناگن کے خون اور اگ سے غسل کرنے پر میں اپنی شکتیاں واپس حاصل کرسکتا تھا..
کون تھی یہ ناگن..
کہاں تھی..
میں اٹھ کر بیٹھ گیا..
جن زاد
قسط نمبر : 16
تحریر : ارشد احمد
اہم نوٹ:- *"میں پہلے وضاحت کرچکا ہوں میں پروفیشنل رائٹر نہیں ہوں نیز بزنس اور دیگر مصروفیات بہت زیادہ ہوتی ہیں دوسری بات میں صرف موڈ سے ہی لکھ پاتا ہوں چاہ کر بھی اگر میرا کوئی خاص ناول لکھنے کا دل نہیں تو نہیں لکھ پاتا اسی لئے جن زاد, سلطنت اور خوشبو کا انتقام تینوں شروع کئے کہ بعض اوقات کوئی ایک ناول نہیں لکھ پاتا مستقل تو اس ناول کو ختم کرنے سے بہتر ہے لکھتا رہوں کم ہی سہی.."*
ترکن کی انگوٹھی سے علم ہوا..
یہ ناگ قبیلے سے تھی جو افریقہ میں اباد تھا..
مگر اس قبیلے تک پہنچنا اور اس ناگن کو حاصل کرنا جان جوکھم کاکام تھا..
*"ایک اور اہم بات ہر روز یا دوسرے دن کسی بھی ناول کی قسط نہیں ائے گی انے کو ہر روز دو اسکتی ہیں نہیں تو یہ بھی ممکن ہے دس دن میں ایک ائے یہ مصروفیت اور موڈ پر ہے اس لئے اپ سب اس کی عادت ڈال لیں جو نہیں ڈال سکتے یہ عادت ان سے عاجزانہ گزارش ہے میرے ناولز پڑھنا چھوڑ دیں یا مکمل ہونے کا انتظار کرلیا کریں بجائے کمینٹس میں بار بار پوچھنے سے.."*
اگر میرے پاس اڑنے کی شکتی ہوتی تو میں اسانی سے وہاں جا سکتا تھا..
مگر صرف نادیدہ ہونے کی شکتی یا ترکن کی انگوٹھی کے سہارے ناں ہی وہاں جانا ممکن تھا اور ناں اس ناگن تک پہنچنا..
شاید ابھی میرے نصیب میں اپنی شکتیوں کو حاصل کرنا نہیں لکھا تھا..
نصیب کو کوشش سے بدلا جا سکتا ہے مگر اس کے لئے بھی وقت درکار تھا..
یعنی فی الحال فوری طور پر یہ ممکن نہیں تھا..
وہ ناگن بھی بے پناہ شکتیوں کی مالک تھی..
*"اخری اور سب سے اہم بات مجھے نفرت کی حد تک چڑ ہے نیکسٹ کہنے سے خواہ وہ پسند کی وجہ سے کہیں یا اگلی قسط کی بے صبری کی وجہ سے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو عنقریب نیکسٹ کہنے والے بناء وارننگ گروپ سے بین ہوجائیں گے.
امید ہے تمام لوگ ان باتوں کا خیال رکھیں گے.."*
اگر میں وہاں پہنچ بھی جاتا تو بھی اس ناگن سے جیتنا اسان نہیں تھا..
میں نے بہتر سمجھا اس موضوع کو فی الحال دماغ سے نکال دیا جائے..
میں نے ڈرائیور کا تصور کیا تو وہ کسی مضافاتی علاقے میں ایک گھر میں موجود تھا اور ایک لڑکی کو قائل کر رہا تھا..
مگر لڑکی خوفزدہ تھی اور اس کے ساتھ انے پر تیار نہیں تھی..
میں نے انکھیں بند کرلیں اور ارام کرنے لگا..
تقریبا ایک گھنٹے بعد ہٹ کا دروازہ بجا تو میں نے اٹھ کر دروازہ کھول دیا..
ڈرائیور کے ہاتھ میں کچھ پیکٹس تھے اور ساتھ میں چادر میں لپٹی ہوئی ایک لڑکی..
ڈرائیور نے وہ کھانے وغیرہ کے پیکٹ میز پر رکھ دئے شراب میں پیتا نہیں تھا اس لئے اسے لانے سے بھی منع کیا تھا تو پیکٹس میں یقینا کھانا ہوگا..
بابو جی یہ کنول ہے..
پہلی بار ہے ناں تو تھوڑی سی گھبرائی ہوئی ہے..
میں صبح سات بجے اجائوں گا اسے واپس لینے اس کے چہرے پر مکروہ قسم کی مسکراہٹ تھی..
میں نے ایک بڑا نوٹ اس کے حوالے کیا اور دروازہ لاک کرلیا..
کنول ایزی ہوجائو اور کھانا لگائو مجھے بھوک لگی ہے..
کنول نے چادر اپنے جسم اورچہرے پر بری طرح لپیٹی ہوئی تھی..
میری بات سن کر وہ اٹھی اور میز کی طرف بڑھ گئی جہاں کھانے کے پیکٹ موجود تھے..
اس کے ہاتھوں اور جسم میں واضح کپکپاہٹ میں محسوس کر رہا تھا..
کھانے کے پیکٹ اس نے لاکر بستر پر رکھ دئے یہ ڈسپوزیبل تھے ساتھ میں کولڈ ڈرنک..
مجھے شدید بھوک لگی تھی میں نے کھانا شروع کردیا..
کنول ایک طرف کھڑی تھی چادر سے صرف اس کی انکھیں نظر ارہی تھیں اس لئے اس کے تاثرات کا اندازہ کرنا مشکل تھا..
کھانا کھا لو بھوک لگی ہے تو پھر ٹھنڈا ہوجائے گا..میں نے اسے مخاطب کیا..
نہ..نہیں..مجھے..بھوک نہیں..
پھر بھی کھا لو..
ہم دونوں صبح تک یہیں ہیں کیا ایسے ہی چادر میں لپٹی کھڑی رہو گی..
میں کھا نہیں جائوں گا تمھیں ناں تمھاری مرضی کے بناء تمھیں ٹچ کروں گا فکر مت کرو سکون سے کھانا کھائو..
میری بات سن کر اس نے میری انکھوں میں دیکھا..
شاید وہ یقین اور بے یقینی کی کیفیت سے گزر رہی تھی..
ڈرتے ڈرتے وہ بیڈ کی سائیڈ پر ٹک گئی..
میں تیسری بار کہ رہا ہوں کھانا کھا لو پھر ڈانٹ کر کہوں گا تو رونا شروع کردو گی..
میری بات سن کر اس نے ڈرتے ڈرتے چہرے سے چادر ہٹا دی مگر اور مضبوطی سے جسم پر لپیٹ لی..
موٹی موٹی انکھوں اور خوبصورت چہرے کی مالک کنول کی عمر مجھے پچیس چھبیس سال لگی..
اسکی انکھوں میں ڈر اور خوف کا ایک سمندر موجزن تھا..
وہ جانتی تھی کہ یہاں کس لئے لائی گئی ہے..
مجھے اس کے حالات جاننے کا موقع نہیں ملا تھا اس کی جگہ کوئی بھی لڑکی ہوتی جو پہلی بار ایسے کسی معاملے میں ایسی کسی جگہ پر ائی ہوتی تو اتنی ہی خوفزدہ اور پریشان ہوتی..
میرا نام شاشین ہے..کھانا کھائو..
نام سن کر اس کی انکھوں میں کچھ حیرانگی کے تاثرات ابھرے..
مگر اس نے بحرحال کھانا شروع کردیا تھا..
کھانا کھانے کے دوران خاموشی رہی اس کے بعد اس نے سب کچھ سمیٹ کر واپس میز پر رکھ دیا اور بستر کے ایک طرف کچھ دور اکر کھڑی ہوگئی...
اب بحرحال اس نے اب چہرہ نہیں چھپایا تھا اور کچھ ارام دہ محسوس ہورہی تھی..
مسئلہ یہ تھا کہ کمرے میں صرف یہی ایک بیڈ تھا اور کوئی کرسی وغیرہ موجود نہیں تھی یا شاید یہاں انے والوں کو صرف بستر اور بیڈ ہی کی ضرورت ہوتی تھی..
اس طرف اجائو کنول میں نے اسے اپنے برابر میں بستر پر انے کا اشارہ کیا..
میں پہلے کہ چکا ہوں پھر کہ رہا ہوں پرسکون ہوجائو اگر تم نہیں چاہو گی تو میں تمھاری مرضی کے بناء تمھیں ہاتھ نہیں لگائوں گا..
باتیں کرنا چاہو تو ٹھیک ہے اگر ناں چاہو تو بتا دو میں سوجاتا ہوں..
نہیں نہیں..ٹھیک ہے..اس نے شاید میری بات پر یقین کرلیا تھا اور میرے برابر میں اکر بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی..
میں علم نجوم جانتا ہوں اور اس کے ذریعے میں کسی بھی شخص کے بارے میں سب کچھ جان سکتا ہوں..
کیا میں حساب لگا کر تمھارے بارے میں کچھ بتائوں اگر تمھیں پسند ہو تو..
یہ سب جھوٹ ہوتا ہے..
مجھے اس پر یقین نہیں..
اپ کو اس نے میرے بارے میں پہلے سے سب بتایا ہوا ہوگا..
کنول کا اشارہ ڈرائیور کی طرف تھا..
ہاں مگر وہ سب کچھ نہیں بتا سکتا ناں ہی تمھاری ذاتی زندگی یا زندگی کے خفیہ گوشوں کے بارے میں..
یہ تو کوئی بھی نہیں بتا سکتا..کنول نے کہا..
میں بتا سکتا ہوں ناں..کہا تو ہے میں علم نجوم جانتا ہوں میں نے مسکراتے ہوئے کہا..
مجھے یقین نہیں..کنول نے کہا..
چلو اگر میں نے بتا دیا سب کچھ جو دنیا میں تمھارے علاوہ کوئی ناں جانتا ہوا تو تم کم سے کم اپنی یہ چادر اتار کر ایک طرف رکھ دو گی اور ارام اور سکون سے مجھ سے بات کروگی..منظور..
ہاں..اس نےہچکچاتے ہوئے کہا..مگر ایسی باتیں جو میرے علاوہ دنیا میں کوئی ناں جانتا ہو..
میں تمھاری مہینے والی تاریخوں کا بھی بتا سکتا ہوں اتنی پرسنل تو چند باتیں ہی ہونگی ناں..
میری بات سن کر اس کے چہرے پر شرم کے تاثرات ابھر ائے..
اچھا بتائیں..میں سن رہی ہوں..
تاریخ کا بتائوں..میں نے شرارتی لہجے میں کہا..
ہاں بتائیں..اگر بتا دیا..کنول کچھ کہتے کہتے رک گئی..
میں نے انکھیں بند کیں اور ذہن میں کنول کا تصور کیا..
تمھاری تاریخ دو دن پہلے ختم ہوئی ہے..
اب خاموش رہو اور مجھے باقی حساب لگانے دو...
میں نے کہ کر انکھیں دوبارہ بند کرلیں مگر اس کا منہ حیرانگی سے کھل چکا تھا..
تمھارے باپ کا انتقال اس وقت ہوا تھا جب تم کالج میں تھیں اور بیالوجی کی کلاس میں تمھیں اطلاع دی گئی تھی..میں نے انکھیں بند کر کے ہی بولنا شروع کیا..
تمھارے علاوہ تمھاری دو بہنیں اور ایک بھائی بھی تھا جو سب سے چھوٹا تھا..
باپ کے مرنے کے چند دن بعد گھر سے باہر کھیلتے ہوئے وہ گم ہوگیا تھا یا اغواء ہوگیا تھا اور اس کا اج تک کوئی سراغ نہیں ملا..
جس گھر میں تم لوگ ہو تمھارا اپنا ہے اور تمھاری ماں کپڑے سلائی کر کے تم لوگوں کی پرورش کرتی رہی ہے..
تم گھر کا خرچ چلانے کے لئے اسکول میں نوکری کرنے پر مجبور ہوئیں اور ہر جگہ کبھی پرنسپل کبھی ساتھی ٹیچرز کی جانب سے جنسی ہراسگی کا سامنا کرنے کی وجہ سے تم کئی اسکول بدل چکی ہو..
تین سال پہلے ایک اسکول میں پرنسپل نے اور ٹائم کا بہانہ بنا کر تمھیں اسکول میں روکا تھا...
اور کوئی مشروب پلا کر تمھاری عزت کو داغدار کردیا تھا مگر یہ واقعہ تم اج تک کسی کو بتا نہیں پائیں...
ناں ہی اس کے خلاف کچھ کر پائیں صرف خاموشی سے اسکول چھوڑ دیا تھا...
مگر تم اب کنواری نہیں رہی ہو..
میں نے اپنے بازو پر کنول کے ہاتھ کی گرفت محسوس کی اس نے سختی سے میرا بازو جکڑا ہوا تھا..
کئی لڑکوں نے تمھیں محبت کا جھانسا دینے کی کوشش کی تم نے ایک دو سے دوستی بھی رکھی مگر کسی کو بھی باتوں سے اگے نہیں بڑھنے دیا..
پچھلےکچھ عرصے سے تمھاری ماں شدید بیمار ہے اور اس کے علاج کے پیسے نہیں تمھارے پاس..
اس ڈرائیور سے تمھارا تعلق اس وقت قائم ہوا جب تم نے اسکول کی نوکری پر انے جانے کے لئے وین لگوائی تھی تو یہی تمھیں اور کچھ دیگر ٹیچرز کو لاتا لے جاتا تھا..
تم اج کل پھر بیروزگار ہو ماں بھی اتنی بیمار ہے کہ بستر سے اٹھنے بیٹھنے سے قاصر ہے اور گھر میں فاقے چل رہے ہیں..
اسی ڈرائیور نے تمھیں پیسوں کے لئے یہ راہ دکھائی اور اج تمھیں لے کر یہاں اگیا ہے..
میں نے انکھیں کھول دیں..
مزید بتائوں..میں نے کنول کی انکھوں میں دیکھا..
مگر وہاں صرف انسوئوں کی نمی تھی..
اس نے میرا بازو ابھی تک جکڑا ہوا تھا..
میں نے اہستگی سے اپنا بازو چھڑوا کر اس کے کندھے پر رکھ کر اسے ساتھ لپٹا لیا..
اس بار اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی..
تم فکر مت کرو کنول میں تمھارے ساتھ تمھاری مرضی کے بناء کچھ نہیں کروں گا..
ناں ہی میں اتنا گھٹیا اور نیچ ہوں کہ کسی کی مجبوری یا ضرورت سے فائدہ اٹھائوں..
رہ گیا تمھاری ماں کا علاج اور گھر کے حالات تو اس کے لئے مجھ سے جو ہوسکا میں ضرور کروں گا..
کنول میرے کندھے پر سر رکھے بلک رہی تھی..
جن زاد
قسط نمبر : 17
تحریر : ارشد احمد
میں نے اسے سینے سے لگا لیا..
وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہی تھی..
میں بہت دیر اس کی کمر سہلاتا رہا اور اسے پرسکون کرتا رہا..
اخرکار اس کی ہچکیاں تھم گئیں..
میں نے اس کا چہرہ ہاتھوں میں لے کر اس کا ماتھا چوم لیا..
تم بالکل فکر مت کرو میں تمھارے ساتھ ہوں..
میں پوری کوشش کروں گا تمھارے سارے مسائل حل کر سکوں..
اپ کہاں رہتے ہیں..کیا کرتے ہیں..کنول نے انکھیں پونچھتے ہوئے سوال کیا..
فی الحال تو کہیں نہیں..مگر اج کل میں لے لوں گا کوئی گھر..
اپ بہت امیر ہیں کیا..کنول نے حیرانگی سے کہا..
ہاں کہ سکتی ہو اتنا مت سوچو میرے بارے میں..
میں نے ایک بڑا نوٹ نکال کر سائیڈ میں رکھ کر باقی سارے پیسے اس کی طرف بڑھا دئے..
یہ سنبھال لو اپنے پاس اور سکون سے سوجائو دو تین گھنٹے بعد وہ لینے اجائے گا تو گھر چلی جانا..
ان پیسوں سے راشن ڈلوائو اور ماں کی دوائیں لو اس کے علاوہ گھر سے نکلنے کی ضرورت نہیں..
میں اج کل میں ائوں گا تمھارے گھر پھر اگے زندگی کا فیصلہ کریں گے..
اپ کو میرا گھر..
میں پتہ کرلوں گا اسے چھوڑو تم..
لیٹو..میں نے اسے بستر پر لٹا دیا اور خود بھی برابر میں لیٹ گیا..
میں سیدھا لیٹا ہوا تھا اور کنول کروٹ کے بل میری طرف تھی..
چادر وہ اب اتار چکی تھی اور پرسکون نظر ارہی تھی..
مجھے یقین نہیں ارہا اب تک دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں..
مجھے اج تک جو مرد بھی ملا اسے صرف میرے جسم سے غرض رہی صرف مفاد پرست لوگ..
مجھے ہنسی اگئی..میں اسے کیا بتاتا کہ میں انسان نہیں ہوں..
اپ ہنس رہے ہیں..
ہاں بس ایسے ہی..
میں بالکل اچھا نہیں ہوں اور بہت سی لڑکیاں میری زندگی میں ائی ہیں..
میں پہلے اس بات کا خیال نہیں رکھتا تھا کہ کوئی مجبور ہے یا ضرورت مند مجھے جو پسند اتی تھی میں اسے حاصل کر لیتا تھا..
مگر پھر مجھے احساس ہوا کہ طاقت ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اپ جائز ناجائز کا فرق بھول جائیں..
یہ طاقت جو اپ کو عطا ہوتی ہے کسی وقت بھی اپ سے چھن سکتی ہے اور اپ بے یارومددگار رہ جاتے ہیں..
تب میری ذات میں تبدیلی واقع ہوئی اور شاید میں بدل گیا..
مگر میرے اندر کا حیوان اج بھی زندہ ہے اور وہ حیوان ہر مرد میں موجود ہوتا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف عورت کو اپنی حوس کے لئے استعمال کرنا ہوتا ہے..
ماحول, وقت, تربیت اور تعلیم سے لوگ اس حیوان کو قابو میں رکھتے ہیں مگر یہ ہوتا ہر مرد میں ہے..
مرد دھوکےباز ہوتے ہیں..
عورت کو حاصل کرنے کے لئے وہ شادی سے لے کر محبت تک ہر کھیل کھیلتے ہیں..
جہاں انھوں نے عورت کو حاصل کرلیا وہیں ان کی نام نہاد محبت ختم ہوجاتی ہے اور پھر..
تو ان سے بچا کیسے جاسکتا ہے..کنول نے میری بات کاٹ کر سوال کیا..
کبھی کسی کی ظاہری خوبصورتی, رنگ روپ اور مال دولت پر مت جائو..
اگر کوئی شخص دل کا اچھا ہے عورت کی عزت کرنا جانتا ہے وعدہ خلاف نہیں زبان کا پابند ہے خاندانی اطور رکھتا ہے مگر خوبصورت نہیں یا زیادہ مالدار نہیں تو وہ اس شخص سے ہزار گنا بہتر ہوگا جو ظاہری اور دنیاوی مال و دولت کے باوجود سیاہ باطن رکھتا ہو..
کنول کا ایک بازو میرے سینے پر اچکا تھا اور انکھیں پرسکون انداز میں بند ہوگئی تھیں..
میں نے اس کی طرف کروٹ لی تو اس نے انکھیں کھول دیں..
میں نے اپنا بازو سیدھا کر کے اس کا سر اپنے بازو پر رکھ لیا اور اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا..
سکون سے سوجائو..
کنول نے اسودگی سے انکھیں بند کرلیں..
میں ہمیشہ سے غلط تھا عورت استعمال کرنے کی چیز نہیں ہوتی..
ناں ہی ہر عورت کے لئے ایک جیسی سوچ رکھنی چاہئے..
شاید میں اپنی جسمانی طلب پوری کر کے بھی پرسکون ناں ہوتا جتنا سکون اپنے بازو پر سر رکھے لیٹی اس لڑکی کو دیکھ کر محسوس کر رہا تھا..
میں نے اس کا ماتھا چوم لیا..
اس بار اس نے انکھیں نہیں کھولیں تھیں..
کچھ دیر اورگزری تو وہ کروٹ کے بل ہی میرے سینے میں سما چکی تھی..
سنیں..اس کی اواز سنائی دی..
میں اس قابل نہیں ہوں اور اپ جان چکے ہیں کنواری بھی نہیں ہوں..
مگر میں خود کو اپ کو سونپ رہی ہوں..اپ کو کسی بات سے نہیں روکوں گی..
میں نے اس کا چہرے دیکھنا چاہا مگر اس نے سختی سے مجھے جکڑا ہوا تھا اور اپنا چہرہ میرے سینے میں چھپایا ہوا تھا..
اپ نے مجھے عزت دی..مان دیا..احساس کیا..میں اس کا قرض نہیں چکا سکتی..
پاگل لڑکی اگر میں نے تمھیں حاصل کرنا چاہا ہوتا تو تم مجھے نہیں روک سکتی تھیں..
چند لمحوں کی جسمانی لذت سے بہت بہتر یہ سکون ہے اور تمھارا بھروسہ ہے جو میرے لئے قیمتی ہے سوجائو اب خاموشی سے بس..
اگلے دو تین گھنٹے کنول کے میری بانہوں میں ارام کرتے گزرے..
اخرکار وقت گزر گیا اور ہٹ کا دروازہ بجا..
میں نے کنول کو چوم کر ہٹا دیا..
وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور چادر لپیٹ لی..
میں نے دروازہ کھول دیا وہی ڈرائیور دروازے پر اپنی غلیظ مسکراہٹ لئے موجود تھا..
میں نے ایک اور بڑا نوٹ اس کی طرف بڑھا دیا..
مجھے شہر چھوڑ دو اور اسے اس کے گھر چھوڑ ائو..
کچھ دیر بعد میں ٹیکسی میں شہر کی طرف جارہا تھا کنول پچھلی سیٹ پر موجود تھی..
شہر میں ایک جگہ میں ٹیکسی رکوا کر کنول کو الوداع کہ کر اتر گیا..
ابھی صبح کا وقت تھا اور بازار میں اکا دکا دکانیں ہی کھلی تھیں..
میں نے ایک دکان کی اڑ میں منتر پڑھا اور نادیدہ ہوگیا..
اب میرا رخ بازار میں موجود بینک کی طرف تھا..
نادیدہ حالت میں میرا وجود لطیف صورت میں تھا اس لئے اسانی سے بینک کے دروازے میں سے گزر گیا..
کچھ دیر کی تلاش کے بعد میں بینک کے مین لاکر میں داخل ہوچکا تھا جہاں الماریوں میں ہر طرح کے چھوٹے بڑے نوٹوں کی گڈیاں قرینے سے لگی ہوئی تھیں..
الماریاں لاک تھیں مگر میرے لئے ان لاکس کی کوئی اہمیت نہیں تھی..
قریبی دکان سے میں نے ایک بڑا بیگ نکال لیا تھا اور بینک کے باہر ایک ٹھیلے کی اڑ میں رکھا ہوا تھا..
اگلے ایک گھنٹے میں بڑے نوٹوں کی گڈیاں لا لا کر اس بیگ میں بھرتا رہا..
جب بیگ منہ تک بھر گیا تو ایک گڈی میں نے جیب میں رکھی اور بیگ کی زپ بند کر کے اسے اٹھایا اور پوچھتا پچھاتا ایک ہوٹل تک پہنچ گیا..
یہ صاف ستھرا تھری اسٹار ہوٹل تھا..
ہوٹل پہنچ کر میں نے کمرہ بک کروایا جو تیسری منزل پر تھا..
ادھے گھنٹے بعد میں نہا دھو کر بستر پر لیٹا اور انکھیں بند کر کے گہری نیند میں ڈوب گیا..
جن زاد
قسط نمبر : 18
تحریر : ارشد احمد
میری انکھ دوپہر میں کھلی نہا دھو کر تازہ دم ہوکر میں نے کھانا کھایا اور بستر پر دراز ہوکر ترکن کی انگوٹھی کی مدد سے کنول کی خبر لی..
اس کے گھر میں خوشیاں لوٹ ائی تھیں اور گھر میں راشن اور ماں کی دوائوں سے ان لوگوں کے چہروں کی رونق بحال ہوگئی تھی..
میں نے کنول کے دل کا حال جاننا چاہا..
اس کے دل میں میرے لئے محبت, عزت اور ممنونیت کے جذبات تھے اور اس کا بس نہیں چل رہا تھا کس طرح مجھ پر فدا ہوجائے کس طرح میرے احسان کا قرض اتار دے..
عورت کی مرد سے پہلی ڈیمانڈ عزت ہوتی ہے مان ہوتا ہے بھروسہ ہوتا ہے جو مرد اپنی عورتوں کو خواہ وہ بیویاں ہوں یا انکی محبت یہ سب کچھ نہیں دے پاتے وہ انھیں کھو دیتے ہیں..
اگر محبت یا پسند ہو تو اخرکار ختم ہوجاتی ہے اگر میاں بیوی کا رشتہ ہو تو عورت صرف مرد کو برداشت کرتی ہے مجبوریوں اور ضرورتوں کے بوجھ تلے..
کسی بھی تعلق میں خواہ محبت کا تعلق ہو سیکس کا تعلق ہو یا میاں بیوی کا اگر عزت نہیں, مان نہیں, یقین نہیں اور بھروسہ نہیں تو وہ تعلق وہ رشتہ قائم رہنا ناممکن ہوتا ہے..
اگر ظاہری طور پر بیوی شوہر کو برداشت بھی کر لے تو وہ ٹوٹ جاتی ہے اور اس کا دل ویران ہوجاتا ہے اندر سے خالی ہوجاتی ہے..
عورت کے دل کے سنگھاسن پر مرد صرف اسے عزت, مان اور یقین دے کر ہی براجمان رہ سکتا ہے..
عام طور پر لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ محبت زندگی میں صرف ایک بار ہوتی ہے جو کہ سو فیصد غلط ہے..
ایک محبت کو ہمیشہ دوسری محبت ختم کردیتی ہے جو لوگ غلط فیصلوں یا غلط لوگوں سے محبت کرلیں اگر وہ اس فیصلے اس تعلق کو قائم بھی رکھنا چاہیں تو سوائے اذیت اور درد کے کچھ حاصل نہیں ہوپاتا..
میں نے کنول کے گھر کا ایڈریس معلوم کیا اور بیگ سے نوٹوں کی کچھ بڑی گڈیاں نکال کر جیبوں میں ڈالیں اور ہوٹل سے باہر اکر ٹیکسی لے لی..
میرا رخ کنول کے گھر کی طرف تھا..
میں چاہتا تھا جلد از جلد اس معاملے کو انجام تک پہنچا دوں..
ادھے گھنٹے کے سفر کے بعد میں کنول کے دروازے پر موجود تھا..
یہ مضافاتی علاقہ تھا اور اس کا گھر بھی عسرت زدہ نظر ارہا تھا مگر میں اندر داخل ہوا تو مجھے ہرچیز میں سلیقہ اور قرینہ نظر ایا..
کنول مجھے دیکھ کر حیران رہ گظی تھی شاید اسے اتنی جلدی میرے دوبارہ انے کی امید نہیں تھی..
اس نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا جہاں کوئی فرنیچر نہیں تھا مگر زمین پر صاف ستھری چاندنی اور تکیے رکھ کر فرشی نشست کا اہتمام کیا ہوا تھا..
کچھ دیر میں کنول چائے کے کپ اور بسکٹوں کے ساتھ نمودار ہوئی..
اس کا چہرہ اندرونی خوشی سے کھلا ہوا تھا..
چائے رکھ کر وہ میرے سامنے بیٹھ گئی..
مجھے یقین نہیں ارہا اپ...
میں نے اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے پیار بھری چٹکی اس کے بازو میں کاٹ لی..
اگیا یقین..میں مسکرایا..
کنول کھلکھلا کر ہنس پڑی..
ہاں اگیا ہے یقین..مگر پھر بھی..
پھر بھی کیا..جب میں نے کہا تھا میں ائوں گا تو پھر ناں کا کیا سوال..
اچھا کیا اپ ائے بہت خوشی ہورہی ہے مجھے دل سے..
خوشی دل سے ہوتی ہے یا دماغ سے میں نے اسے چھیڑا..
خوشی تو دل میں ہی ہوتی ہے ہاں محسوس اسے دماغ کرواتا ہے کنول نے عقلمندی سے جواب دیا..
اچھا سنو..میری زندگی اور معاملات کا کچھ پتہ نہیں ہے..تم گھر کی بڑی ہو اور تمام فیصلے بھی اب تمھارے ہاتھ میں ہیں..کیا تمھیں مجھ پر بھروسہ ہے..
اپ کو نہیں لگتا ایسا...کنول نے الٹا سوال کیا..
لگتا ہے تب ہی تو میں یہاں تمھارے سامنے بیٹھا ہوں..
میں نے اپ کو اپنا اپ رات کو سونپ دیا تھا کنول کی انکھوں میں حیاء کے تاثرات ابھر ائے..
عورت جب دل سے کسی کو اپنا مان لیتی ہے تو پھر وہ اپنی جان, مال, عزت, ابرو ہر چیز اس مرد پر نچھاور کر دیتی ہے..
اگر میں کہوں کہ یہ ملک چھوڑ دو اور کسی دوسرے ملک چلو پھر..میں نے اسکی انکھوں میں دیکھا..
میں اپکے ساتھ دنیا کے اخری کنارے تک بھی جانے کے لئے تیار ہوں یقینا اپ نے میرے بارے میں کوئی فیصلہ کرتے ہوئے میری ماں اور بہنوں کو بھی مدنظر رکھا ہوگا تو مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت اپ حکم کریں صرف کنول مسکرائی..
میں نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں لے کر چوم لیا..
شکریہ اس یقین اور بھروسے کے لئے کنول..
نہیں شاشین..جو یقین اور بھروسہ اپ نے مجھے دیا مجھے میری نظروں میں سرخرو کیا میری عزت رکھی مجھے مان دیا اس کے جواب میں تو یہ کچھ بھی نہیں ہے..
اچھا یہ بتائو..تمھاری امی یہاں سے جانے کے لئے تیار ہوجائیں گی..میں نے پوچھا..
کیوں نہیں ہونگی..یہاں ہمارا ہے ہی کون..چند رشتے دار جنھوں نے ابو کے مرنے کے بعد سے کبھی پلٹ کر نہیں پوچھا..
کبھی کوئی راستے میں نظر اجائے جائے تو منہ پھیر کر گزر جاتے ہیں ہمارا کیا ہے یہاں..
مگر میں پوچھ سکتی ہوں اپ مجھے کہاں لے جانا چاہتے ہیں..
کنول میرے لئے تو ساری دنیا ایک جیسی ہے مگر میں چاہتا ہوں تم کراچی چلی جائو..
کنول کی انکھوں میں حیرانگی کے تاثرات ابھرے..
پاکستان میں...وہاں کیا ہے..اور میری بلکہ ہم سب کی شہریت یہاں کی ہے وہاں کیسے ممکن ہوگا جانا پھر..
یہ سب مسائل مجھ پر چھوڑ دو..
بس تم لوگ جانے کی تیاری کرو..
اور یہ گھر اور سامان وغیرہ..
بس چھوڑ دو اسے ایسے ہی اگر وہاں ناں سیٹ ہوسکو اور کبھی واپس انا چاہو تو اجانا رہ گیا سامان تو اس کی ضرورت نہیں وہاں ہر چیز کا انتظام ہوجائے گا..
میں نے جیب سے نوٹوں کی ایک گڈی نکال کر اسکی طرف بڑھائی یہ رکھ لو اور کپڑے اور دیگر ضروری چیزوں کی خریداری کرلو میں کاغذات وغیرہ بنواتا ہوں..
کنول کے چہرے پر اتنے پیسے دیکھ کر حیرت اور بے یقینی کے تاثرات ابھر ائے تھے...
اتنے پیسے..اس کے منہ سے بس یہی نکل سکا..
میں نے جب جیبوں میں موجود باقی نوٹوں کی گڈیاں اس کے سامنے ڈھیر کیں تو اسکی انکھیں حیرت سے پھٹنے کے قریب ہوگئیں..
صرف اس لئے دکھا رہا ہوں پاگل کہ سارے معاملات اور مسائل مجھ پر چھوڑ دو تم صرف وہ کرو جو میں کہ رہا ہوں..
اگلے چند دن کاغذات بنوانے اور دیگر تیاریوں میں گزرے..
اس نے اپنی ماں اور بہنوں کو کس طرح راضی کیا انھیں کیا کہا یہ سب معاملات میں نے ناں ہی پوچھے ناں اس کی ضرورت محسوس کی..
کاغذات بننے کے ٹھیک تین دن بعد ہم کراچی میں تھے..
کراچی پہنچ کر میں نے سب کو شاہراہ فیصل پر ایک ہوٹل میں ٹھرا دیا اس کے بعد پیسوں کا انتظام کر کے پی ای سی ایچ ایس کے علاقے میں ایک عالی شان دو منزلہ کوٹھی کا سودا کیا جو مکمل فرنشڈ تھی..
اس کے بعد کنول سمیت سب لوگوں کے ارجنٹ شناختی کارڈ اور دیگر کاغذات بنوائے جن کی رو سے وہ پاکستانی شہری تسلیم کئے جاتے..
پیسوں کے لئے میں نے وہی بینک والا طریقہ اختیار کیا تھا..
وہ کوٹھی کا ٹوکن میں کر چکا تھا جب فائنل پیمنٹ کا وقت ایا تب تک سب کے کاغذات بن کر اچکے تھے..
وہ کوٹھی میں نے کنول کے نام پر ٹرانسفر کروا دی..
جب میں ان لوگوں کے ساتھ پہلی بار کوٹھی میں داخل ہوا تو حیرت سے ان کی انکھیں کھل گئیں..
یہ امارت اور شان و شوکت انھوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچی تھی..
نچلی منزل پر ان لوگوں نے رہائش اختیار کی میں نے اپنے لئے اوپری منزل کا چن لی تھی..
میں نہیں جانتا تھا کب تک میرا ساتھ ہے مگر جب تک تھا میں انھیں ہر قسم کی پریشانیوں اور مسائل سے دور رکھنا چاہتا تھا..
میں نہیں جانتا کنول میں کیا کشش تھی یا کس وجہ سے میں نے اس کے لئےاتنا کچھ کیا مگر بحرحال وہ حوس کا جذبہ نہیں تھا..
ہم شام عصر کے وقت کوٹھی میں شفٹ ہوئے تھے جہاں دنیا کی ہر سہولت اور اسائش مہیا تھی..
نہا دھو کر تازہ دم ہوکر میں کوٹھی سے باہر اگیا..
اگلے دو تین گھنٹے میرے ضائع ہوئے مگر میں کامیاب رہا..
رات کے نو بج رہے تھے جب میں ٹیکسی میں واپس گھر ایا..
بیل بجانے پر دروازہ کنول نے کھولا اور میرے ساتھ ایک اجنبی کو دیکھ کر حیران ہوگئی...
جن زاد
قسط نمبر : 19
تحریر : ارشد احمد
اس نے جلدی سے دوپٹہ سر پر لے لیا اور سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا...
اندر تو انے دو ہمیں..میں نے مسکراتے ہوئے کہا تو کنول ایک طرف ہٹ گئی...
چند لمحوں میں ہم ڈرائنگ روم میں تھے جہاں میں نے کنول کی امی اور بہنوں کو بھی بلوا لیا تھا..
وہ لوگ منتظر نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے اور اس اجنبی کو بھی..
وہ اجنبی جس کا نام کاشف تھا ہر بات سے بے خبر تھا..
اس کا نام کاشف ہے..
بائیس سال قبل یہ بچہ اپنے گھر کے باہر گلی میں کھیل رہا تھا کہ کچھ لوگوں نے اسے اغواء کر لیا..
مختلف جگہوں پر بکتا ہوا یہ بچہ اخرکار پاکستان کے شمالی علاقے میں ایک بیگار کیمپ میں پہنچا دیا گیا..
وہاں کئی برسوں تک اس سے سخت محنت و مشقت کروائی گئی اور ظلم و ستم کیا گیا..
یہ وہیں اسی بیگار کیمپ میں پلا بڑھا اور جوان ہوا..
اپس کی قبائلی لڑائی میں ایک گروہ نے اس بیگار کیمپ پر حملہ کیا..
اس حملے میں میں کئی لوگ مارے گئے اور بہت سے قیدی وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ان میں یہ بھی شامل تھا..
پہاڑوں اور ویرانوں میں بھٹکتے ہوئے یہ پشاور پہنچا اور محنت مزدوری کرتے اور دھکے کھاتے اخرکار کراچی پہنچ گیا..
یہاں یہ ایک موٹر مکینک کی دکان پر ملازم ہے اور اس مکینک نے اسے اجازت دی ہوئی ہے رات کو دکان میں ہی بنے ہوئے ایک چھجے پر اس کی رہائش ہے..
یہ اپ کا بیٹا اور تم لوگوں کا بھائی ہے جس کا ثبوت بچپن میں پیٹ پر جلنے کا نشان ہے جب اس نے جلتا ہوا ائل چولھے پر سے خود پر گرا لیا تھا..
سب لوگ پھٹی پھٹی انکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اور سب پر جیسے سکتہ طاری ہوگیا تھا..
اس کے بعد کےلمحات خوشی کی چیخیں انسو اور شکر کے کلمات تھے..
میں ان سب کو چھوڑ کر اوپر والی منزل پر اپنے کمرے میں اگیا جہاں میرا سامان کنول نے سیٹ کردیا تھا اور سلیقے سے میرے لباس اور دیگر چیزیں الماری میں رکھ دی تھیں..
میں تھک گیا تھا اس لئے جوتے اتار کر بستر پر لیٹ گیا..
مجھے لیٹے ہوئے کچھ دیر ہی گزری تھی کہ کنول کی اواز سنائی دی شاشین..
میں نے انکھیں کھولیں تو وہ دروازے پر کھڑی تھی..
میں اسے دیکھ کر اٹھ گیا اور ٹانگیں لٹکا کر بیڈ پر بیٹھ گیا..
کنول بھاگتی ہوئی ائی اور بیڈ سے کھڑا کر کے مجھ سے لپٹ گئی..
شاشین..اپ..اس کی اواز بھرائی ہوئی تھی اور اس سے بولنا مشکل ہورہا تھا..
پاگل ہٹو دروازہ کھلا ہے کوئی اگیا تو کیا سوچے گا..
مگر اس نے اپنا وجود سختی سے میرے جسم میں پیوست کیا ہوا تھا..
بہت دیر بعد میں اسے پرسکون کرپایا..
شاشین..اپ انسان نہیں فرشتہ ہیں..
نہیں جانتی کونسی نیکی کا پھل مجھے ملا ہے..
اپ..اپ..میرے لئے..ہمارے لئے..
میں نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا..
تم میری اصلیت نہیں جانتی ہو کنول..
مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اپ ماضی میں کیا تھے کیسے تھے کتنی لڑکیوں سے اپ کے تعلقات تھے اور ائندہ ہونگے..
اپ نے مجھے فرش سے اٹھا کر اسمان تک پہنچا دیا..
میری ماں کو نئی زندگی لوٹادی..
زندگی کی ہر اسائش ہر خوشی اپ نے ہماری جھولی میں ڈال دی..
اور اج تک اپ نے حوس زدہ نظر سے میری طرف دیکھا تک نہیں..
ایک ابرو باختہ لڑکی..
کنول..چپ ہوجائو..فضول باتیں مت کرو..میں نے ناراضگی سے اس کی بات کاٹ دی..
تمھیں علم نہیں ہے میں انسان نہیں ہوں ایک جن زاد ہوں..
میری بات مکمل ہوتے ہی جیسے کنول کو جھٹکا سا لگا..
پھر اس کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوگئی..
جن..پاگل بنانے کے لئے اپ کو میں ہی ملی ہوں..کنول ہنسی..
جنوں کا کوئی وجود نہیں ہوتا یہ سب کہانیاں ہیں اور جو..
اگلے ہی لمحے اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے میں منتر پڑھ کر اس کی نظروں کے سامنے سے اوجھل ہوچکا تھا..
الفاظ اس کے ہونٹوں پر ہی جیسے ٹھر گئے..
حیرت اور بے یقینی سے وہ اسی جگہ دیکھے جارہی تھی جہاں میں نادیدہ ہونے سے پہلے کھڑا تھا..
شاشین..کنول کی انکھوں میں خوف کے تاثرات ابھر ائے..اور اس نےڈرتے ڈرتے میرا نام پکارا..
اہستہ اہستہ وہ الٹے قدموں پیچھے ہٹنے لگی..
میں منتر پڑھ کر دوبارہ ظاہر ہوا تو اس کے قدموں کو بریک لگ گئی..
اس کی انکھوں میں خوف اور حیرانگی کی کیفیت یکجا تھی..
وہ چلتی ہوئی میرے پاس ائی اور میرا بازو تھام لیا..
وہ میرے ہونے کا یقین کرنا چاہ رہی تھی..
میں نے تمھیں کہا تھا میں انسان نہیں ہوں میں نے کبھی کسی بات میں اج تک تم سےجھوٹ نہیں کہا ناں ہی مجھے جھوٹ بولنے کی کوبی ضرورت ہے..
شاشین...نہیں..یہ..کیسے..جن..نہیں اپ کے پاس کوئی ایسی طاقت ہے..جس سے..جس سے اپ غائب ہوجاتے ہیں..جن..نہیں...
ہاں میں اپنی زیادہ تر شکتیاں کھو چکا ہوں لمبی کہانی ہے پھر کسی وقت سنائوں گا مگر یہ حقیقت ہے میرا تعلق جنوں کے قبیلے سے ہے اور میں اس وقت انسانی روپ میں ہوں..
اسی وقت کنول کی ماں, بھائی اور بہنیں بھی اگئیں اور ہماری بات ادھوری رہ گئی..
تمام لوگ اتنا پیار اور خلوص نچھاور کر رہے تھے کہ مجھے شرمندگی محسوس ہورہی تھی..
بہت دیر یہ سلسلہ چلتا رہا اخرکار سب لوگ چلے گئے اور میں واپس بستر پراگیا..
کچھ دیر میں کنول کھانا لے کر اگئی اور بیڈ پر ہی لگا دیا..
اس نے خود بھی نہیں کھایا تھا اور میرے ساتھ کھانے کی خواہشمند تھی..
کھانے کے دوران ہم باتیں کرتے رہے اسے اب بھی یقین کرنا مشکل ہورہا تھا کہ میں انسان نہیں ہوں..
اگلے چند دن میں کاشف کو میں نے ایک پوش علاقے میں مکینک اور سپئیر پارٹس کا شاندار شوروم کھلوا دیا جہاں وہ دل لگا کر محنت کر رہا تھا..
کنول کی ناز برداریاں جاری تھیں اور ہر گزرتے دن وہ اپنا خلوص اور محبتیں مجھ پر نچھاور کررہی تھی..
ایک دن کنول اور اس کی امی جان ڈاکٹر کے پاس گئی ہوئی تھیں اور کاشف اپنے شوروم پر کہ کنول کی چھوٹی بہن جو اس سے دو تین سال ہی چھوٹی تھی کی چیخوں کی اواز سنائی دی..
کنول کا کمرہ الگ تھا اور اس کی امی اور بھائی کا الگ...
اس کی دونوں بہنیں جو اس سے ایک دو سال چھوٹی تھیں ایک کمرے میں سوتی تھیں..
میں چیخوں کی اواز سن کر بھاگتا ہوا نچلی منزل پر ان کے کمرے تک پہنچا اور دروازہ بجایا جو لاک تھا اور انھیں اوازیں دینا شروع کیں..
چند لمحے بعد دروازہ کھلا اور ایک بہن کی وحشت زدہ شکل دروازے پر نظر ائی..
میں تیزی سے کمرے میں داخل ہوا تو چھوٹی والی فوزیہ جسم پر صرف مختصر چادر لپیٹے ہوئی تھی اور خوفزدہ انداز میں کمرے کے ایک کونے پر کھڑی تھی..
میں نے سوالیہ نظروں سے اس سے بڑی ثناء کی طرف دیکھا..کیا ہوا اسے..
اس کمرے میں کوئی ہے..اس نے وحشت زدہ انداز میں کہا..
وہ اگ کا کوئی شعلہ سا تھا..یہ کپڑے بدل رہی تھی..اس اگ کے شعلے نے..اس کے..اس کے..مطلب..اندر کے..مطلب...مختصر والے کپڑوں کو جلا دیا..مگر اس..اگ..سے فوزیہ کو کوئی نقصان نہیں ہوا..ثناء نے اٹک اٹک کر ساری بات بتائی..
میں حیرت سے دونوں کی طرف دیکھتا رہ گیا..
جن زاد
قسط نمبر : 20
تحریر : ارشد احمد
میں نے کمرے میں نظر دوڑائی تو باہر کی طرف کھڑکی کھلی ہوئی تھی جو لان کی طرف کھلتی تھی..
چلو ٹھیک ہے ریلیکس ہوجائو کوئی بات نہیں ہے..
ہمیں بہت ڈر لگ رہا ہے..دونوں نے بیک اواز کہا..
اچھا کپڑے پہن لو اور تم لوگ باہر ڈرائنگ روم میں اجائو جب تک سب اتے ہیں میں ساتھ ہوں..
میں نے فوزیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا..
میں نے باہر جانے کے لئے قدم بڑھائے تو فوزیہ کی اواز ائی..
پلیز..رک جائیں..
ارے تم کپڑے تو پہنو ناں یار..کوئی اگیا تو کیا سوچے گا اس طرح مجھے کمرے میں دیکھ کر..میں نے الجھ کر کہا..
نہیں وہ..اپ..بس دوسری طرف منہ کرلیں...بس..یہیں رکیں..
اچھا ٹھیک ہے میں دروازے کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوگیا اور انکھیں بند کرلیں..
میں ترکن کی انگوٹھی کی مدد سے جاننا چاہ رہا تھا کہ یہاں کیا معاملہ ہے..
مگر مجھے حیرت کا جھٹکا لگا جب مجھے کوئی جواب نہیں ملا..
میں نے دوبارہ کوشش کی..
اس بار صرف اتنا دیکھ پایا کہ کوئی اگ کا شعلہ ہے جو اس وقت یہاں موجود نہیں..
مگر اس کی حقیقت کیا ہے اس بارے میں ترکن کی انگوٹھی نے کوئی مدد نہیں کی..
وہ طاقت جو کوئی بھی تھی یا اس نے اپنے گرد حصار کھینچا ہوا تھا یا کوئی ایسا عمل جو ترکن کی اس انگوٹھی کی طاقت سے باہر تھا..
جی پہن لئے ہیں..اس بار ثناء کی اواز ائی تو میں نے انکھیں کھول دیں..
فوزیہ شلوار قمیض پہن چکی تھی..
مجھے دکھائو ذرا میں چلتا ہوا فوزیہ کے پاس پہنچا وہاں زمین پر راکھ پڑی ہوئی تھی..
یہ نیچے پہننے والے کپڑے تھے جو جل کر راکھ ہوگئے تھے..
تمھارے جسم پر کسی قسم کا کوئی نشان تو نہیں میں نے فوزیہ سے سوال کیا..
جب وہ اگ انھیں..جلا..رہی تھی تب بھی مجھے اگ کی تپش یا جلن محسوس نہیں ہوئی تھی..
مگر..میرے..سینے..مطلب..درمیان میں سرخ رنگ کا ایک مدھم سا نشان ضرور ہے جو اب سے پہلے نہیں تھا..
اوہ..چلو ائو باہر..میں نے دونوں کو باہر چلنے کا اشارہ کیا اور ان کے ساتھ چلتا ہوا ڈرائنگ روم میں اکر بیٹھ گیا..
یہ کوئی بدروح تھی جو میرے علم کے مطابق فوزیہ کے جسم پر حاوی ہوچکی تھی..
فوزیہ کے لئے اب شدید خطرہ تھا اگر میں ٹھیک تھا تو جلد اس پر دورے پڑنا شروع ہوجاتے اور وہ ہلکی رنگت کا سرخ نشان جو اس کے سینے پر تھا تیز سرخ رنگ میں تبدیل ہوجاتا..
زیادہ ڈر مجھے اس بات کا تھا کہ فوزیہ غیر شادی شدہ ہے..
اگر وہ بدروح خود کو جسم کی شکل میں لانے پر قادر ہوئی تو وہ اس کے جسم سے اپنی ہوس بھی مٹا سکتی ہے..
مجھے سخت غصہ ارہا تھا ان دونوں پر انھیں اتنی عقل نہیں تھی کہ کپڑے بدلتے وقت کھڑکی اور دروازے کو بند رکھیں..
دوسرا مجھے اس بات پر غصہ تھا کہ میں اپنی طاقتوں سے محروم تھا ورنہ کوئی بھی مخلوق جن, بھوت, بدروح یا کچھ بھی میرے سامنے نہیں ٹک سکتا تھا..
کچھ دیر میں کنول اور اس کی امی واپس اگئیں تو میں اٹھ کر اوپری منزل پر اپنے کمرے میں اگیا..
میری توقع کے عین مطابق چند منٹ بعد کنول مجھے دروازے سے اندر اتی نظر ائی..
اندر اکر اس نے دروازے کو لاک کر لیا تھا مجھے اس کی اس حرکت پر حیرانگی ہوئی مگر میں نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا..
امی کے کمرے میں ہیں دونوں..کنول نے کہا اور میرے پاس بستر پر اکر نیم دراز ہوگئی..
یہ کیا کہ رہی ہے فوزیہ..اپ کو کچھ سمجھ ایا..کنول نے سوال کیا..
ہاں..دعا کرو میرا اندازہ غلط ہو مگر انھوں نے کپڑے بدلتے احتیاط نہیں کی اور ان کے کمرے کی کھڑکی لان کی طرف کھلتی ہے جو اس وقت کھلی ہوئی تھی جب وہ کپڑے بدل رہی تھی..
وہاں سے گزرتی یا وہاں موجود کوئی بدروح اس منظر کو دیکھ کر کمرے میں اگئی اور اس نے اس کے کپڑوں کو جلا دیا..
فوزیہ کہ رہی تھی کہ اس کے سینے پر گول سکے کے برابر ایک ہلکے سرخ رنگ کا نشان نمودار ہوگیا ہے جو پہلے نہیں تھا..
یہ نشانی ہوتی ہے بدروح کی جسم کے کسی بھی حصے پر نشانات ابھر اتے ہیں اور وہ مختلف طرح کے اور رنگ کے ہوسکتے ہیں..
اگر میں ٹھیک ہوں تو فوزیہ مصیبت میں ہے اس پر دورے پڑنا شروع ہوجائیں گے..
کنول میری بات سن کر اٹھ بیٹھی تھی مگر اس کی انکھوں میں بے یقینی کے تاثرات تھے..
شاشین..کوئی اور اگر یہ باتیں کرتا تو میں کبھی یقین ناں کرتی..
مگر اپ..عجیب ہے یہ سب شاشین..بہت عجیب..
ہاں کنول ہے مگر حقیقت ہے جب تک کسی کو اس کا تجربہ یا مشاہدہ ناں ہو وہ اسے تسلیم نہیں کرتا..
مگر شاشین..اب کیا ہوگا..
اپ کچھ نہیں کر سکتے..کنول پریشان ہورہی تھی..
میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا..
میرے پاس صرف نادیدہ ہونے کی طاقت ہے میں اس سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ناں ہی کسی روح یا غیر مرئی طاقت کے خلاف کچھ کر سکتا ہوں..
مگر تم پریشان مت ہو میں اس کا کوئی حل سوچتا ہوں..
رکو..میں نے انکھیں بند کیں اور ترکن کے تحفے سے مدد لینے کی کوشش کی..
کنول..میں نے کچھ دیر بعد انکھیں کھول کر اسے مخاطب کیا..
مجھے کچھ خون درکار ہوگا..
ایک خطرناک عمل ہے تین دن کا..
مگر اس سے کم سے کم فوزیہ محفوظ ہوجائے گی..
ہاں تو لے لیں خون میں نے کب منع کیا میرا سب کچھ اپ کا ہے کنول نے مسکرا کر اپنا بازو اگے بڑھا دیا کہ جیسے میں اس کے بازو میں سے ابھی خون نکال لوں گا..
پاگل..یہ نہیں وہ خون..
وہ کونسا خون..خون تو بس خون ہوتا ہے ناں..کنول نے الجھن سے کہا..
نہیں یار....وہ....مجھے...ناپاک خون درکار ہے..
اوہ..کنول کے منہ سے بس اتنا نکلا..
میں تو پچھلے ہفتے ہی پاک ہوئی ہوں..
میرا خیال ہے فوزیہ ناپاک ہے اسی لئے وہ بدروح اسانی سے اس کے جسم پر قابض ہوگئی..میں نے خیال ظاہر کیا..
ہاں مگر..اسے کیسے کہوں گی..عجیب لگے گا ناں..پھر جواز کیا دوں گی..
میں کیا کہوں اس بارے میں..
باقی سامان تو میں لے ائوں گا مگر اس معاملے کا میرے پاس کوئی حل نہیں ہے میں نے جواب دیا..
چلیں میں کچھ کرتی ہوں..کنول نے سوچتے ہوئے کہا..کب کرنا ہے اپکو عمل..
کل رات سے شروع کروں گا دن میں باقی سامان بھی ڈھونڈ کر لانا پڑے گا..
ٹھیک ہے میں کل تک کر لوں گی اس کا انتظام اپ فکر مت کریں..
سنیں..کنول کی انکھیں حیاء سے جھکی ہوئی تھیں..
بولو..کیا بات ہے..میں نے کہا..
مجھے پیار چاہئے اپ کا..کنول نے کہا..اور میں حیرت سے اسے دیکھتا رہ گیا..
0 Comments