جن زاد
قسط نمبر : 11
تحریر : ارشد احمد
|
میں نے انسانی قوم میں سے کسی کو اتنا حسین کم ہی پایا تھا..
رینا چلتی ہوئی میرے سامنے کرسی تک اگئی اور مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو جیسے میں چونک کر اسکے حسن کے سحر سے ازاد ہوا..
میں احتراما کھڑا ہوا اور اس کے ہاتھ کو نرمی سے تھام کر روایتی انداز میں بوسہ دے کر چھوڑ دیا..
یقینا رینا اپنے حسن کی تباہ کاری سے واقف تھی اور اس وقت اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی..
تشریف رکھئے پلیز میں نے اسے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اس کے بیٹھنے کے بعد اپنی کرسی پر بیٹھ گیا..
لگتا ہے اپ نے کبھی کوئی عورت نہیں دیکھی رینا شرارت سے کھلکھلائی تو اس کے حسین دانت موتیوں کی طرح جھلملانے لگے..
نہیں..عورتیں تو بہت دیکھیں ہیں مگر اپسرا دیکھنے کا اتفاق پہلی بار ہوا ہے ناں تو تاب حسن نے جیسے سکتہ طاری کردیا..
ہاہاہاہا..رینا ہنسی..اپ باتوں کے بھی جادوگر ہیں..اسکی بولتی انکھوں میں پسندیدگی تھی..
نہیں بس کہا ناں یہ سب اپ کےحسن و جمال کی کرشمہ سازی ہے الفاظ خودبخود تعریف کا روپ دھار لیتے ہیں..میں نے مسکراتے ہوئے کہا..
امد کا مقصد نہیں پوچھیں گے رینا نے ادا سے کہا..
کوئی دیوی یا اپسرا جب اپ کے غریب خانے کو رونق بخش دے تو اس سے امد کا مقصد پوچھنا میری نظر میں بدذوقی ہے..
اس سے کہیں بہتر ہے میں اپنی خوش نصیبی پر غرور کروں..
اپ واقعی الفاظ کے جادوگر ہیں..رینا کے چہرے پر مسکراہٹ تھی..
میں کچھ مسائل کا شکار ہوں..رینا ہچکچاتے ہوئے گویا ہوئی..
میں پوری توجہ سے سن رہا ہوں اپ کی بات..
میرے گھر میں جنات موجود ہیں..رینا نے اپنی طرف سے انکشاف کیا..
میں مسکرا کر رہ گیا..
اب اسے کیا بتاتا اور سمجھاتا کہ وہ اس وقت بھی ایک جن زاد سے ہی مخاطب ہے..
اپ شاید میری بات کو مذاق سمجھ رہے ہیں..
نہیں نہیں..بالکل بھی نہیں..میری مسکراہٹ کی وجہ کچھ اور تھی اپ بات مکمل کیجئے پلیز..
کیا اپ یقین کریں گے میری عمر چالیس سال ہے..
اس بار میں واقعی حیرت زدہ رہ گیا..
اس کے چہرے, جسم اور اٹھان سے وہ کسی صورت بھی اٹھائیس تیس برس سے زیادہ نہیں لگتی تھی..
یہ واقعی حیرانگی کی بات ہے اپ اس سے ادھی عمر کی بھی نہیں لگتیں میں نے حقیقت میں حیرانگی کا اظہار کیا..
خیر اب ایسا بھی نہیں رینا نے ایک ادا سے اپنی زلفوں کو چہرے سے ہٹایا جو چاند سے اٹکھیلیاں کر رہی تھیں..
ایسا ہی ہے یقین کرلیں..میں نے مسکراتے ہوئے کہا..
اچھا سنیں ناں..
جی جی میں سن رہا ہوں..
میں کہ رہی تھی کہ میرے گھر میں جنات ہیں..
میری شادی کو بیس برس ہوگئے ہیں اور میرے پتی بے انتہا دولت مند ہیں مگر ہم لوگ ابھی تک اولاد سے محروم ہیں..
اپ کو جنات کے وجود کا احساس کیسے ہوا اور ان سے اپ کو کیا پریشانی ہے..میں نے سنجیدگی سے رینا سے سوال کیا..
وہ کوئی مرد جن ہے اور..اور..شاید.. مجھ پر عاشق ہے..رینا نے جھجکتے ہوئے کہا..
رینا نے میری طرف دیکھا مگر میں سنجیدگی سے اس کی بات سن عہا تھا تو اس کا حوصلہ بڑھا..
میرے پتی اپنے بزنس کے سلسلے میں زیادہ تر ملک سے باہر رہتے ہیں..بلکہ یوں کہ لیں وہ باہر ہی رہتے ہیں یہاں وہ بس چھٹیاں منانے اتے ہیں کبھی کبھار چند دن کے لئے..
تو اپ اپنے پتی سے خوش نہیں..میں نے سوال کیا..
خوشی کیا ہوتی ہے..اگر اسائشات, دولت, نوکر چاکر خوشی ہے تو دنیا کی ہر نعمت مجھے میسر ہے..
مگر عورت کو پیسے اور اسائشات سے زیادہ محبت, کئیر اور عزت کی ضرورت ہوتی ہے..
اگر یہ چیزیں ناں ہوں تو شاید دنیا کی کوئی اسائش اسے خوشی نہیں دے سکتی..رینا بات کر کے خاموش ہوگئی..
یعنی اپ کو اپنے شوہر کی طرف سے پیار, محبت, کئیر, عزت نہیں ملتی..
نہیں..ہمارا تعلق میاں بیوی کا ہے اور رشتہ بھی مگر ہمارے درمیان بہت فاصلہ ہے ذہنی بھی اور حقیقی بھی کہ ان بیس برسوں میں شاید اگر کل وقت دیکھیں تو چند مہینے بھی انھوں نے میرے ساتھ نہیں گزارے..
اور اس کی وجہ..میں نے پھر سوال کیا..
پیسہ اکثر مردوں کو بگاڑ دیتا ہے یہی ان کا بھی مسئلہ ہے باہر نت نئے کھانے اور ڈشیں دستیاب ہوں تو گھر کو کھانا دال برابر ہی ہوتا ہے شاید..
اور یہ جن والا معاملہ کیسے شروع ہوا..
پچھلے مہینے وہ ائے ہوئے تھے ایک ہفتے کے لئے تو میں نے ان سے بوریت کی شکایت کی..
انھوں نے اس کا حل یہ کیا کہ مجھے اس علاقے میں بنگلا لے دیا کہ جب بوریت ہو ساحل سمندر پر چلی جایا کروں اور دل بہلا لیا کروں..
میرا نیا گھر جو ہے اس میں ایک بہت بڑا لان ہے جہاں چند درخت بھی ہیں..
میری خواب گاہ اوپری منزل پر ہے اور اس کی کھڑکی اس لان کی طرف کھلتی ہے..
رینا کیا اپ رات کو بے لباس سونے کی عادی ہیں..
جی ہاں..
میرے سوال پر رینا کا چہرہ حیاء سے سرخ ہوگیا اور اس نے پلکیں جھکا کر مختصر جواب دیا..
ٹھیک ہے یقینا کسی دن کھڑکی کھلی رہ گئی ہوگی اور وہ جن یا جو بھی کوئی مخلوق ہے اس نے اپ کو دیکھا اور اپ کے حسن کا دیوانہ ہوگیا میں نے مسکراتے ہوئے کہا..
رینا نے پلکیں اٹھا کر میری طرف دیکھا مگر خاموش رہی شرم اورحیاء اس کے چہرے سے عیاں تھی..
ٹھیک ہے..اب یہ بتائیں کہ وہ جن کیا اپ کو دکھائی دیتا ہے یا اس کی کن باتوں اور حرکتوں سے اپ پریشان ہیں...
نہیں وہ دکھائی نہیں دیتا مگر اس کی موجودگی محسوس ہوتی ہے مجھے اور یہ وہم نہیں حقیقت ہے..
مجھے اپنے بستر پر اپنے برابر میں وہ لیٹا ہوا محسوس ہوتا ہے..
اس کے علاوہ بھی بہت دفعہ اس نے مختلف طریقوں سے مجھے اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے..
مطلب جیسے میں کمرے سے باہر جانا چاہوں تو اکثر دروازہ خود کھل جاتا ہے..
میری بکھری ہوئی چیزیں سمٹ جاتی ہیں..
میرا بیڈ بہت بڑا اور جہازی سائز کا ہے میں اس کے ایک طرف لیٹتی ہوں مگر ہر رات دوسری طرف بھی شکنیں موجود ہوتی ہیں جیسے وہاں کوئی لیٹا ہو..
کوئی ایک بات نہیں بیسیوں ایسے واقعات اور باتیں ہیں..
کیا اس نے کبھی اپ کو چھوا یا ٹچ کیا..میں نے سوال کیا...
ہاں..میں اس رات سوئی ہوئی تھی..اسی...حالت..میں....مطلب..وہ..یعنی..چادر لی ہوئی تھی صرف..جو شاید نیند میں ہٹ گئی ہوگی..کھڑکی بھی کھلی تھی..رینا کے چہرے پر دوبارہ حیاء کے تاثرات ابھر ائے..
اچانک مجھے محسوس ہوا کہ کوئی مرد مجھ پر لیٹا ہوا ہے..اس کی سانسیں میں نے اپنے چہرے پر محسوس کیں..
دہشت اور خوف سے جیسے میں سکتے کی حالت میں اگئی..
جب اس کے ہاتھ مجھے جسم پر محسوس ہوئے تو میں نے زوردار اواز سے چیخنا چلانا شروع کردیا..
میری اواز سن کر نوکر اگئے اور دروازہ بجانا شروع کردیا..
ان کے اتے ہی وہ بوجھ مجھ پر سے ہٹ گیا..
میں نے جلدی سے اٹھ کر دروازہ کھولا..
اس دن کے بعد سے میں ویسے نہیں سوئی اور خواب گاہ بھی تبدیل کرلی..
تب سے اب تک اس نے مجھے چھوا نہیں مگر اور دوسرے طریقوں سے وہ مجھے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے..رینا تفصیل بتا کر خاموش ہوگئی..
اسی وقت میرے کمرے کا دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور رینا کی انکھوں میں خوف کے تاثرات ابھر ائے..
جن زاد
قسط نمبر : 12
تحریر : ارشد احمد
میں جو رینا کی باتوں کے سحر میں کھویا ہوا تھا ایک لمحے کو مجھے بھی جھٹکا لگا..
مگر یہ ملازم تھا جو کافی لے کر ایا تھا..
رینا نے اسے دیکھ کر سکون کا سانس لیا..
ملازم نے کافی ہمارے سامنے سرو کی اور کمرے سے باہر چلا گیا..
مجھے رینا کی بات سن کر سمجھ نہیں ارہی تھی کہ اس کے مسئلے کا کیا حل کروں..
اگر میرے پاس شکتیاں موجود ہوتیں تو میں اسے اس جن یا جو بھی غیر مرئی مخلوق تھی اس سے نجات دلا دیتا..
مگر صرف نادیدہ ہونے کی شکتی سے میں کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا..
اپ میری سہائتا کریں گے ناں..رینا نے پر امید نظروں سے مجھے دیکھا...
ہاں ضرور..میں نے مسکراتے ہوئے کہا..
کیسے..رینا نے سوال کیا..
مجھے خود انا پڑے گا رینا وہاں اور دیکھنا پڑے گا اس معاملے کو..
حقیقت میں میرے پاس اس سارے معاملے کا کوئی حل نہیں تھا مگر میں رینا کو انکار نہیں کرسکتا تھا..
تو اج کیوں نہیں..رینا نے کہا..
نہیں مجھے ایک دن کا وقت دیں مجھے کچھ تیاری کرنی ہوگی..
چلیں ٹھیک ہے..رینا اٹھ کھڑی ہوئی..
میں بھی اس کے احترام میں اٹھ گیا..
رینا نے پرس سے ایک کارڈ نکالا اور میز کے پیچھے سے گھوم کر میرے نزدیک اگئی اور کارڈ میری طرف بڑھایا...
وہ اتنا نزدیک تھی کہ اس کی سانسوں کی مہک مجھے بے چین کرنے لگی..
اس کی انکھوں میں امید اور پیاس کا دریا بہ رہا تھا..
مجھے نراش مت کیجئے گا..
میں منتظر رہوں گی اپ کی..
اور اپ کی فیس..رینا نے میری انکھوں میں دیکھ کر سوال کیا..
اس کا چہرے مجھ سے چند انچ کے فاصلے پر تھا اور میں اس کے بدن کی حدت سے پگھلتا جارہا تھا..
اپ نے اپنے حسن کا جلوہ دکھا کر انکھوں کو سیراب کردیا ہے اپ سے فیس طلب کر کے میں شرمندہ نہیں ہونا چاہتا..میں بے بات بنائی..
حقیقت میں مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ میں اس کا مسئلہ حل کرپائوں گا یا نہیں اور اس کام کی فیس ہوتی کتنی ہے..
چلیں..اپ کو اپکے کام کی فیس بمع سود ادا کردوں گی..رینا نے قاتل نگاہوں سے مجھے دیکھا جیسے کوئی بھوکی شیرنی اپنے شکار کو دیکھتی ہے..اور مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھا دیا..
میں نے اس کے ہاتھ تھام کر چوم لیا اور رینا ایک ادا سے چلتی ہوئی کمرے سے رخصت ہوگئی..
رینا کے جانے کے بعد بھاتی کمرے میں داخل ہوئی اور میرے سامنے کرسی پر بیٹھ کر کھوجتی نظروں سے مجھے دیکھنے لگی..
کیا دیکھ رہی ہے بھاتی..
کچھ زیادہ ہی دیر نہیں لگا دی تم نے اس کا "مسئلہ" حل کرنے میں..
بھاتی کے لہجے میں حسد جھلک رہا تھا..
یقینا اسے کسی حسین عورت کے ساتھ میری موجودگی برداشت نہیں ہورہی تھی...
مگر وہ داوا کے ہاتھوں مجبور تھی یہ اسی کا بچھایا ہوا کھیل تھا جس کا مقصد بھی ابھی میں نہیں جانتا تھا..
ارے وہ..بیچاری پریشان تھی..اور دیکھ یہ داوا نے ہی بولا ہے ناں..
ہاں تو بڑا فرمانبردار داوا کا..بھاتی نے جل کر جواب دیا..
پھر کیا کرتا بھگا دیتا اسے..میں نے ناراضگی دکھائی..
کیا مسئلہ تھا اس کا..بھاتی نے موضوع بدل دیا..
اس پر کوئی جن بھوت عاشق ہوگیا ہے اس سے پیچھا چھڑوانا چاہتی ہے وہ..
ہاں..ایک جن سے پیچھا چھڑوا کر دوسرے جن کے چکر میں اجائے گی جانتی ہوں میں سب..
ارے نہیں یار..بے فکر ہوجا..میں..
مجھے کوئی فکر نہیں تو بے شک دم ہلاتا ہوا اسکے پیچھے جا..بھاتی بھری ہوئی تھی..
اچھا چھوڑ ناں اس کو...تو ساڑھی میں غضب ڈھا رہی ہے اج...
یقین کر لے میرا دل جیسے بے قرار ہورہا ہے..
میں نے مکھن لگایا..
بس رہنے دے تو..
بھاتی نے کہا مگر تعریف سن کر اس کا پارہ نیچے اگیا تھا..
مردوں کی تو فطرت ہوتی ہے ہر عورت کو دیکھ کر رال ٹپکانے لگ جاتے ہیں..
ارے نہیں بھاتی..تیرا اس سے کیا مقابلہ..
تیری خوبصورتی کے سامنے وہ پانی بھرتی ہے..
بس پیسہ ہے ناں اس سے اپنا رنگ روپ سنبھالا ہوا ہے ورنہ چالیس سال کی بڑھیا ہے وہ..
میں نے بھاتی کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے دھڑلے سے جھوٹ بولا جہاں میری بات سن کر چراغ سے روشن ہوگئے تھے..
سچ کہ رہا ہے تو..بھاتی نے میری طرف دیکھا..
مجھے جھوٹ بول کر کیا ملے گا بھاتی..
تو جنگلی گلاب ہے جس کی خوبصورتی اور حسن انمول ہے اور وہ شہر کی مصنوعی رنگ روپ والی عورت..
اس سے تیرا کیا مقابلہ..
بہت دیر تک میں بھاتی کو رام کرتا رہا اخرکار اسے میری باتوں کا یقین اگیا اور وہ خوش ہوگئی..
اگر میں اسے یہ بتاتا کہ میں رینا کے گھر جائوں گا تو وہ ہتھے سے اکھڑ جاتی..
اس لئے بہتر تھا جو کروں خاموشی سے کروں بھاتی سے نظر بچا کر..
مجھے بھاتی کا کوئی ڈر نہیں تھا مگر میں ماحول خراب نہیں کرنا چاہتا تھا اور مجھے فی الحال اس کی ضرورت تھی..
اگلی شام کو میں نے رینا کا کارڈ نکالا اور اسے کال ملائی..
رسمی سلام دعا کے بعد میں نے اسے رات نو بجے انے کا کہا اور اس سے ایڈریس سمجھ لیا..
سورج غروب ہونے سے پہلے میں بھاتی سے کام کا بہانہ کر کے گھر سے باہر نکل ایا اور پیدل رینا کے بنگلے کی طرف چل پڑا جو ہمارے گھر سے دس پندرہ منٹ کی دوری پر تھا...
راستے میں ایک مناسب جگہ دیکھ کر میں نے منتر پڑھا اور نادیدہ ہوگیا...
کچھ دیر بعد میں رینا کے بنگلے کے گیٹ سے اندر داخل ہوچکا تھا..
گیٹ سے اندر تک درمیان میں وسیع و عریض لان موجود تھا جہاں دو تین گھنے پیڑ موجود تھے...
میں نادیدہ حالت میں چلتا ہوا اندر داخل ہوگیا اور مختلف کمروں میں دیکھتا رہا اخرکار مجھے رینا کی خواب گاہ مل گئی..
نادیدہ حالت میں میرا وجود سائے کی طرح تھا اور میں اسانی سے کسی بھی دیوار یا دروازے سے گزر سکتا تھا..
میں رینا کی خواب گاہ میں داخل ہوا تو ٹھٹک کر رہ گیا..
رینا اپنی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی چہرے پر کوئی کریم لگا رہی تھی اور اس کے بستر پر ایک نوجوان دراز تھا جو رینا کیطرف وارفتگی سے دیکھ رہا تھا...
0 Comments