Funny News

 Funny News 

By:Fayaz Ali 

ویبسائٹ: آرکلٹیچ

Funny picture


نوکریوں کی بارش

"کتنے پیسے بھیجوں بیٹا؟" میں نے اپنی ریڑھی سے آلو اٹھا کر ہوا میں اچھالتے ہوئے پوچھا۔ دوسرے ہاتھ میں فون تھا جس پر میرا بیٹا مجھ سے بات کر رہا تھا۔

"ابو ایک سو روپے بھیجیں گے تو ہمیں ایک ماہ کے لیے کافی ہیں"، بیٹے نے جواب دیا۔

"ایک سو روپے کے کتنے ڈالرز بنتے ہیں؟" میں نے سوال کیا۔

"بیس ہزار ڈالرز ابو"، بیٹے نے جواب دیا۔

میں امریکہ سے بسلسلہ روزگار پاکستان آیا تھا۔ میں نے امریکہ سے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی کیا تھا لیکن پاکستان میں میری ڈگری بی اے کے برابر تھی اور یہاں ہر کوئی پی ایچ ڈی تھا۔ اس لیے نوکری نہ ملی تو سبزی کی ریڑھی لگا لی۔ میرا تعلق کیلیفورنیا سے ہے۔ پاکستان میں آیا تو پتہ چلا یہاں انگریزی زبان پر پابندی ہے۔ اس لیے مجھے اردو سنٹر میں داخلہ لے کر اردو سیکھنا پڑی۔ اس دوران مجھے بیروزگاری الاؤنس کے تحت ماہانہ اتنے پیسے مل جاتے کہ تین ماہ میں میری فیملی نے واشنگٹن میں اپنا ذاتی گھر خرید لیا۔

"بیٹا اتنے کم مت مانگا کرو۔ یہاں میں ماہانہ دو لاکھ روپے کما لیتا ہوں۔ ٹیکس ادا کر کے میرے پاس اس وقت تین کروڑ روپے اکٹھے ہو چکے ہیں۔ سارے بھیج دیتا ہوں"، میں نے کہا۔

"ابو ہمیں پیسے نہیں چاہییں۔ ہمیں نکالیں یہاں سے۔ نہیں رہنا ہم نے اس گندے ملک میں۔ ہمیں بھی پاکستان لے چلیں"، میرا بیٹا اپنا مستقبل پاکستان میں بنانے پر بضد تھا۔

"بیٹا تمہاری امریکی تعلیم یہاں کسی کام کی نہیں۔ تمہاری اردو ابھی اتنی اچھی نہیں کہ تمہیں یہاں کلرک کی نوکری بھی ملے۔ رشوت سفارش کا تو پاکستان میں تصور بھی نہیں۔ یہ پاکستانی ہم امریکیوں جیسے کرپٹ نہیں ہیں۔ اور ویسے بھی دنیا کی ٹاپ پانچ سو یونیورسٹییز ساری پاکستان میں ہیں۔ عالمی نمبر ون یونیورسٹی آف پھالیہ میں داخلے کے لیے تمہیں دوبارہ پیدا ہو کر آنا پڑے گا پاکستانی شہریت کے ساتھ۔

پاکستانی ڈگری کے بغیر تمہیں یہاں نوکری ملنا ممکن ہی نہیں۔ تم ایسا کرو یہاں کی کسی دیہی یونیورسٹی میں آن لائن اپلائی کرو۔ شاید داخلہ مل جائے!" میں نے مایوس لہجے میں کہا۔

"جی ابو۔ اچھا یاد آیا۔ امی کا کینسر اب لاعلاج ہو گیا ہے۔ یہاں کے نیشنل ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کے بورڈ نے کہا ہے کہ اب ان کا علاج پاکستان کے علاوہ دنیا میں کہیں نہیں ہو سکتا!" بیٹے نے پریشان ہو کر بتایا۔

"بیٹا تم فوراً ویزہ اپلائی کرو۔ یہاں علاج دوا سب مفت ہے۔ تم لوگ فوراً آ جاؤ۔ اچھا ابھی فون بند کرو، گاہک آیا ہے"، یہ کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔

میری ریڑھی دراصل ایک سنٹرلی ایئر کنڈیشنڈ کمپاؤنڈ میں ایک سٹال تھا جہاں پر سبزیاں پھل ڈبوں میں پیک کر کے دیے جاتے تھے۔ کمپاؤنڈ کی چھت سے لٹکی 7 ڈی سکرین پر خبر چل رہی تھی کہ کینیڈین وزیر اعظم کو بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر دورانِ تلاشی روک دیا گیا تھا۔

"بہت سخت قوانین ہیں پاکستان کے!" میں نے تاسف سے سوچا۔

اسی دوران کمپاؤنڈ میں ایک برطانوی بھکاری داخل ہوا۔ فوراً کمپاؤنڈ کے سنسر نے خود کار طریقے سے پولیس کو اطلاع کر دی اور بھکاری ابھی کمپاونڈ کے وسط میں نہ پہنچا تھا کہ باہر پنجاب پولیس کی پندرہ سے بیس ٹربو کاریں آ کر رکیں اور سیاہ وردیوں میں ملبوس لیزر گنز سے مسلح پنجاب پولیس کے بیس پچیس کمانڈوز اندر گھس آئے۔ انھوں نے لیزر ڈیٹیکٹرز سے بھکاری کی تلاشی لی اور غیر مسلح ہونے کی تصدیق کر کے گرفتار کر لیا۔ اگلے دو منٹ میں کمپاؤنڈ کو کلیئر قرار دے کر پنجاب پولیس غائب ہو گئی۔

اسی لمحے سکرین پر خبر آنے لگی کہ جڑانوالہ سبزی منڈی سے ایک بھکاری گرفتار کر لیا گیا۔ ساتھ ہی وزیراعظم کا بیان چلنے لگ گیا جس میں عوام سے اس غفلت پر معافی مانگی گئی اور وعدہ کیا گیا کہ اس بھکاری کو فوراً انگلینڈ کے حوالے کیا جائے گا اور انگلینڈ سے ہرجانہ لیا جائے گا۔

اگلی خبر میں بتایا جا رہا تھا کہ چین اور روس پاکستان سے آسان شرائط پر قرضہ لینا چاہ رہے ہیں لیکن پاکستان نے سابقہ قرضہ کی وصولی کے لیے چین اور روس سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے عوام پر لگائے ٹیکسوں میں اضافہ کریں۔  

جس خبر پر مجھے زیادہ دکھ ہوا وہ میرے اپنے ملک کے بارے تھی۔ اسلحہ سازی پر پاکستان کی جانب سے عائد پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر پاکستان نے امریکہ پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں


چالاک خاتون

ایک خاتون اپنے شوہر کے ساتھ دبئی کے مشہور بیچ پہ گئی۔ خاتون کے شوہر نے گاڑی کی چابی اور اپنا والٹ بیوی کو تھمایا اور خود پانی میں چلا گیا۔ اچانک خاتون کے ہاتھ سے گاڑی کی چابی پانی میں گر گئی۔ شوہر انتہائی غصیلا، تنک مزاج اور تندخو تھا۔ خاتون بہت گھبرائی۔ گڑگڑا کر اللہ سے دعا کرنے لگی۔ یا اللہ میری مدد کر۔ اگر چابی نہ ملی تو میرے شوہر نے آج سے لے کر شادی تک ساری میری چھوٹی بڑی کوتاہیاں گنوانی ہیں۔ مجھے میرے ماں باپ سمیت کوسنا ہے۔ مجھ پہ رحم کر میرے مولا۔ مجھ میں اب برا بھلا سننے کی سکت نہیں۔ 

خاتون کی آہ و زاری سن کر رحمت خداوندی جوش میں آئ۔ ایک بزرگ نمودار ہوئے۔ اور پانی سے سونے کی چابی جس میں بیش قیمت ہیرے و جواہرات جڑے تھے، نکال کر خاتون کو دی۔ خاتون نے کہا؛ نہیں یہ میری چابی نہیں۔ 

بزرگ نے دوبارہ پانی میں ہاتھ ڈالا اور چاندی کی چابی دی۔ خاتون نے پھر انکار کیا۔ تیسری بار بزرگ نے اصلی چابی نکال کر دی۔ خاتون نے کہا جی یہی ہماری گاڑی کی چابی ہے۔ 


بزرگ، خاتون کی دیانت داری اور راست گوئی سے بے حد متاثر ہوئے اور بطور انعام تینوں چابیاں خاتون کو دے دیں۔ خاتون نے ان چابیوں کی بھنک بھی اپنے مجازی خدا کو نہ لگنے دی۔ ان چابیوں سے بہترین زیورات بنوائے اور جل  ککڑی سہیلیوں اور رشتہ دار خواتین کو خوب کلپایا۔ 


کچھ عرصے بعد خاتون پھر اسی ساحل پہ اپنے شوہر نامدار کے ساتھ گئی لیکن اس بار ساحل پہ واک کرتے ہوئے چابیاں احتیاطا بیگ میں ہی رکھیں۔ لیکن اس بار خاتون کا شوہر ڈوبنے لگا۔ خاتون نے حسب عادت واویلہ مچایا بلکہ پٹ سیاپا ڈالا۔ وہی بزرگ پھر سے نمودار ہوئے اور سمندر سے جسٹن ٹروڈو کو باہر نکالا۔ خاتون نے جلدی سے کہا بہت شکریہ آپ نے میرا سہاگ بچالیا۔ 

بزرگ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ کہنے لگے۔ جھوٹی عورت تمہارا شوہر گنجا، کالا، ٹھنگنا اور بڑی سی توند والا ہے اور تم اس جسٹن کو اپنا میاں کہہ رہی ہو۔ شرم نہیں آتی۔ 

خاتون جلدی سے بولی نہیں بزرگو۔ مجھے آپ کا ٹریک ریکارڈ معلوم ہے۔ میں ڈر گئ کہ کہیں اس بار بھی آپ مجھے پہلے کی طرح تین شوہر نہ پکڑا دیں۔اس لیے خوف کے مارے میں نے پہلے پہ ہی ہاں کہہ دی۔ 

بزرگ، خاتون کی احتیاط اور بلند کردار سے نہایت متاثر ہوئے۔ جسٹن کو خاتون کے حوالے کیا اور اپنی راہ پہ چل پڑے۔۔۔


ٹھگوں کی نانی 


ایک بڑھیا تھی۔ وہ بڑھیا اپنا سارا گہنا پاتا پہن کر کہیں جا رہی تھی۔ گہنا کیا تھا؟ یہی کانوں میں جھمکے تھے۔ باہوں میں گنگن تھے اور گلے میں ہار تھا۔ مگر یہ سارے زیور تھے سونے کے۔ بے چاری بڑھیا کے پیچھے دو ٹھگ لگ گئے۔ دونوں بڑے چال باز، مکار اور عیار تھے۔ دونوں آپس میں گہرے دوست تھے۔دونوں چاہتے تھے کہ بڑھیا سے سارے کا سارا زیور ہتھیا لیں۔ لیکن بڑھیا نے بھی اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے تھے، وہ ٹھگ تو ٹھگ تھے ہی…. یہ بڑھیا ان کی بھی نانی تھی۔ایک ٹھگ نے آگے بڑھ کر علیک سلیک کے بعد پوچھا کہ بڑی اماں کہاں جا رہی ہو؟بیٹا! شہر جا رہی ہوں بڑھیا نے جواب دیا۔ پھر تو خوب ساتھ ہوا۔ بڑی اماں ہم بھی تو شہر ہی جارہے ہیں۔ دوسرا ٹھگ بولا۔ہاں بیٹا! اچھا ہوگیا۔ بڑھیا نے کہا۔  تھوڑی دور چلنے کے بعد ایک ٹھگ بولا۔بڑی اماں کوئی کہانی ہی سناﺅ جس سے سفر کی تھکان معلوم نہ ہو اور وقت بھی جلد کٹ جائے۔ بیٹا! میں بھلا کون سی کہانی سناﺅں؟ تم ہی کچھ کہو۔ہم سنائیں۔ دوسرا ٹھگ بولا۔ مگر بڑی اماں ایک شرط ہے۔ وہ یہ کہ اگر تم نے ہماری کہانی کو جھوٹ کہا تو ہم تمہارے کنگن اتار لیں گے۔ بڑھیا نے ان کی یہ شرط مان لی اور ایک ٹھگ کہانی سنانے لگا۔ بڑی اماں! ہماری ایک گائے تھی۔ بڑی خوب صورت موٹی موٹی آنکھیں تھیں اس کی۔ لمبے لمبے کان تھے۔ دودھ اتنا دیتی تھی کہ ہم دوہتے دوہتے تھک جاتے تھے لیکن دودھ پھر بھی ختم نہ ہوتا تھا۔ اس میں خاص بات یہ تھی کہ اگر ہم اس کے داہنے سینگ پر بیٹھ جاتے تو مغرب میں پہنچ جاتے اور جب بائیں پر بیٹھتے تو مشرق میں آجاتے۔ پاکستان بننے پر جب ہم قافلے کے ساتھ پاکستان آرہے تھے تو ہم پر فسادیوں نے حملہ کر دیا۔ ایک سنسناتی ہوئی گولی آئی اور ہماری گائے کو لگی جس سے بے چاری وہیں ڈھیر ہو گئی۔بڑا افسوس ہوا۔ بڑھیا نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا۔بڑی اماں! اب تم کچھ سناﺅ۔ ٹھگ نے تیر نشانے پر نہ لگتے دیکھ کر کہا۔میں سناﺅں؟ بڑھیا نے کہا۔ اگر تم نے میری بات کو غلط جانا تو تمہیں ایک سو روپیہ دینا پڑے گا۔ٹھگو نے کہا۔ ہمیں منظور ہے۔تو پھر سنو بیٹوں! جب میری شادی ہوئی تو میرے والد نے ایک بیل بھی مجھے جہیز میں دیا۔ بڑا اچھا بیل تھا۔ کسی کو کچھ نہ کہتا تھا، ایک دفعہ یوں ہی باہر کھیت میں کوئی دوسرا بیل اس سے لڑ پڑا۔ ایسا لڑا کہ ہمارے بیل کے ماتھے پر اچھا خاصا زخم ہو گیا ہم نے بہیترے علاج کرائے لیکن زخم نہ بھر سکا…. کرنا خدا کا یوں ہوا کہ بنولے کا دانہ اس کے زخم میں کہیں سے گر گیا۔ ہوتے ہوتے وہ اچھا خاصا پودا بن گیا۔ اس میں ایسی نفیس کپاس لگی کہ تمہیں کیا بتاﺅں، وہ کپاس ہم نے جمع کرنی شروع کر دی۔ اتنی کپاس جمع ہو گئی کہ اب گھر میں جگہ نہ رہی، گھر گھر ہمارے بیل کے چرچے ہونے لگے، بڑی بڑی دور سے لوگ اس انوکھے بیل کو دیکھنے کے لیے آتے۔ اس کی کپاس کو دیکھتے اور تعریفوں کے پل باندھ دیتے۔ اب ہمارے پاس اتنی زیادہ کپاس ہو گئی کہ سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ ہم نے اسے بیلوا کر کاٹنا شروع کیا اور اس کا کپڑا لتا بنانے لگے، کئی قسم کے کپڑے بنوائے، جن میں کھیس بھی تھے، ان کھیسوں میں سے دو کھیس کہیں چوری ہو گئے۔ بیٹا! خدا جھوٹ نہ بلوائے، یہ کھیس جو تم اوڑھے ہوئے ہو، وہی ہیں جو چوری ہوئے تھے۔ مہربانی کر کے یہ کھیس اتار دو۔ دونوں ٹھگوں نے اپنے کھیس بڑھیا کو دے دیے اور کرتے بھی کیا۔ شرط جو تھی۔ مجبور تھے۔ ہاں تو بیٹا! بڑھیا نے پھر کہانی کا سلسلہ شروع کیا۔ ہم نے اس کپاس میں سے ململ کے تھان بنوائے۔ ململ کےتھانوں میں سے ایک تھان گم ہو گیا۔ یہ جو تمہاری پگڑیاں ہیں، اسی تھان کی ہیں، یہ بھی اتاردو۔انہوں نے پگڑیاں بھی اتار دیں۔ نہ اتارتے تو شرط کے مطابق سو روپیہ دیتے۔اب شہر نزدیک ہی تھا۔ ایک ٹھگ بولا۔ بڑی اماں! بھوک لگ رہی ہے۔اچھا بیٹا! شہر آیا ہی سمجھو۔ مجھے اپنے کنگن بیچنے ہیں۔ کنگن بیچ لیں اور پھر آرام سے کسی جگہ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔وہ خاموش ہو گئے اور سوچنے لگے کہ بڑھیا کنگن بیچ لے پھر کوئی داﺅ چلائیں گے۔ وہ بڑھیا کے ساتھ چلتے ہوئے اپنی دماغی سڑکوں پر تدبیروں کے گھوڑے دوڑانے لگے۔ اب وہ شہر میں پہنچ گئے تھے۔ ہر طرف خوب چہل پہل تھی۔ کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ بڑھیا نے اپنے کنگن اتار لیے اور ان سے کہنے لگی: بیٹا! سنار کی دکان آ گئی ہے۔ تم یہاں بیٹھو میں اپنے کنگن بیچ لوں۔ وہ سنار کی دکان کے قریب ہی بیٹھ گئے اور بڑھیا سنار کی دکان پر پہنچ گئی۔ کیا چاہیے اماں تمہیں؟ سنار نے پوچھا۔ میں اپنے دو نوکر بیچنا چاہتی ہوں وہ سامنے بیٹھے ہیں۔ نوکروں کی تو ہمیں بہت ضرورت ہے۔ سنار نے کہا۔ بولو اماں! کیا قیمت ہے ان دونوں کی؟ تین سو روپے۔ بڑھیا نے کہا اور بات دو سو روپے پر طے ہو گئی۔ میں نوکروں سے پوچھ لوں کہ ان میں سے ایک بکنا چاہتا ہے یا دونوں؟ بڑھیا نے کہا اور پھر بلند آواز سے پوچھنے لگی۔ بیٹا! ایک بیچوں یا دونوں؟ ادھر سے جواب ملا۔ اماں! 7دونوں بیچ دے۔ ایک کو کہاں رکھے گی؟ بڑھیا نے دو سو روپوں میں دونوں ٹھگوں کو سنار کے ہاتھ بیچ دیا اور ان کے پاس آ کر کہنے لگی۔ بیٹا! تم یہیں بیٹھو۔ میں تمہارے لیے کھانا لے کر آتی ہوں۔ کچھ مٹھائی بھی لیتی آنا اماں! دونوں نے کہا اور بڑھیا اچھی بات کہہ کر نو دو گیارہ ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد سنار نے انہیں بلایا اور دریاں جھاڑنے کا حکم دیا تو ان کو حقیقت معلوم ہوئی اور انہوں نے کہا۔ ارے وہ تو ہماری بھی نانی نکلی۔

ختم شدہ


بس میں سفر کرنے کا مزا

کل بس میں سفر کے دوران میرے بغل والی سیٹ پر ایک----لڑکا اور لڑکی بیٹھے ہوئے تھے 🧐

ان کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہیں🤔🤔

کچھ ہی دیر بعد آپس میں باتیں کرنے لگے گئے🙈🙈

پھر بات چیت اس مقام پر پہنچ گئی کہ ایک دوسرے کا نمبر مانگے جانے لگا 🤥🤥

‌لڑکے کا موبائل بند تھا تو اس نے جیب سے ایک مڑا تڑا کاغذ کا ٹکڑا نکالا☹️☹️

‌ لیکن لکھنے کے لیے اس کے پاس قلم موجود نہ تھا😅😅

‌ بازو والی سیٹ پر بیٹھا میرا سارا دھیان ادھر تھا 😜😜

‌ اس لئے میں سمجھ گیا کہ لڑکی کا نمبر لکھنے کے لیے لڑکے کو قلم کی ضرورت ہے 😁😁

‌ اس نے بڑی امید سے میری طرف دیکھا 🥰🥰

‌ کیوں کہ اس نے میری شرٹ کی اوپری جیب میں لگا قلم دیکھ لیا تھا😑😑

‌ میں نے قلم نکالا اور چلتی بس سے باہر پھینک دیا 🤫🤫

‌ جب میری سیٹنگ نہیں تو میں کسی اور کی کیوں ہونے دوں🤣😝🤪

فیس بک کی پسند 

ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧﺍﯾﮏ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﻓﯿﺲ ﺑُﮏ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﺁ ﮔﺌﯽ ، ﻓﻮﺭﺍً ﻟﮑﮭﺎ ...

" ﺁﺋﯽ ﻭﺍﻧﭧ ﭨُﻮ ﺷﺎﺩﯼ ﻭِﺩ ﯾﻮ ۔ ۔ ۔ ﺁﺭ ﯾُﻮ ﺭﺍﺿﯽ؟ " ۔

.

ﻟﮍﮐﯽ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺁﯾﺎ ...

" ﮨﺎﮞ ، ﺁﺋﯽ ﺍﯾﻢ ﺭﺍﺿﯽ۔ ﺑَﭧ ﭘﮩﻠﮯ ﭨﺮﺍﺋﯽ ﭨُﻮ ﺭﺍﺿﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﯿﻮ ﺗﮯ ﺑﮯﺑﮯ " ۔

.

ﺁﺝ ﮐﻞ ﯾﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﯿﺎﮞ ﺑﯿﻮﯼ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﮐﺜﺮ ﺍﺳﯽ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﻣﯿﮟ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﺟﮭﮕﮍﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺗﺎﮨﻢ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﭘﻨﺠﺎﺑﯽ ﺑﻮﻟﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺟﻤﻠﮧ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺩﮨﺮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ ...

.

" ﺁﺋﯽ ﺳَﯿﮉ ، ﮐﮭَﺼﻤﺎﮞ ﻧُﻮﮞ ﮐﮭﺎ ۔ ﯾﻮﻭﺭ ﺳﺎﺭﺍ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺍِﺯ ﭼَﻮَﻝ"


سیانے کہتے ھیں کہ خالی یا ویلا دماغ شیطان کا گھر ہوتا ھے مگر میں کہتا ھوں کوئی ایسی گل ای نہیں ۔۔۔۔۔🙄


چھت پر بیٹھا خالی دماغ میں کچھ بھرنے کیلئے سوچ ہی  رها تھا کہ اچانک ایک عام سا پرندہ جسے ہماری زبان میں لالڑی کہتے ھیں میرے پاس آ بیٹھا میں نے ٹائم پاس کرنے کیلئے دیکھتے قبوچ کر لیا اور نیچے اپنے روم میں لے آیا 


دس منٹ اسکی رنگت اور جسامت کو دیکھ کر شیطانی مسکراہٹ چہرے پر لایا ۔۔۔اٹھا اور دراز سے آئل پینٹ کے چودہ کے چودہ کلر نکال کر اس معصوم کے سر ہوگیا ۔۔۔۔

پورا دھیان دیتے ہوۓ تقریباً بیس سے پچیس منٹ بعد عجیب ڈیزائن سے دے کر اسے پینٹ کی مدد سے ایک نایاب پرندے کی شکل دے دی 


کیوٹ سے پنجرے میں ڈال کے ایک دوست جس کی برڈ شاپ ھے اسکے گھر جا پہنچا۔۔۔۔۔


دیکھ انھے آنکھیں پھاڑ کے دیکھ !!!!  رشیا کی برفوں کا یہ  انوکھی طرز کا پرندہ میرے ماموں دو لے کر آئیں ھیں میرے لئے وہاں سے بہت مہنگے برڈ ھیں یہ ۔۔۔۔

پرندہ دیکھتے ہی اسکی آنکھیں باہر کی طرف کو نکل آئیں 


جھٹ سے جیب میں ہاتھ ڈالا پورے پندرہ ہزار گن کر اس پرندے کے میرے ہاتھ میں تھما دیے ۔۔۔۔اب رقم دیکھ کر تقریباً میری آنکھیں باہر آ گئیں تھی 


خیر میں بغیر دیر کئے ہوۓ بولا!!!!!! سمجھ اتنے پیسوں میں مفت میں تجھے یہ پرندہ دے رها ھوں اب اس کی مادہ کے پیسے پورے کر کے رکھ میں اسے بھی گھر سے اٹھا لاتا ھوں 


اب سین یہ ھے کہ وہاں تو اسکی نسل بڑھا کر امیر بننے کے خواب دیکھ رها ھے اور یہاں میں بیس روپے کا باجرہ چھت پر ڈال کر اس عام سی لالڑی کو پکڑنے کا انتظار کر رها ھوں۔۔۔۔😐

نسلی تعصب یا واقعی..؟ 

یورپ میں ایک سردار جی ایک دکان میں گئے اور کہا ، سرسوں دا تیل ہے ؟ 

دکان دار بولا ، آپ سکھ ھو ؟ 

سردار کو اس کے سوال میں نسل پرستی کی بو آئی .. اور وہ بولے . 

ہاں میں سردار ہوں مگر کیا میں کچھ پوچھ سکتا ہوں ؟ 

اگر میں زیتون کا تیل مانگتا تو کیا تم پوچھتے کہ میں اٹلی کا ہوں ؟ 

اگر میں bratwurst مانگتا تو کیا تم مجھے جرمن کہتے ؟ 

اگر میں kosher hotdog مانگتا تو آپ مجھے یہودی کہتے ؟ 


اگر میں حلال گوشت مانگتا تو کیا آپ مجھ سے پوچھتے کہ میں مسلمان ہوں ؟ 


دکان دار بولا .. نہیں .. شاید میں یہ سب نہ پوچھتا ... 


سردار  غصے سے بولا .. کیوں ؟ کیوں ؟ آخر یہ نسل پرستی اور racism سرداروں کے ساتھ ہی کیوں ... کیوں جب میں نے سرسوں کا تیل مانگا تو تم نے پوچھا کہ میں سردار ہوں ؟؟؛


دکان دار مطمین لہجے میں بولا ... 

کیوں کہ یہ wine shop ہے ....

برگر بیگمات  VS  دیسی بیگمات


برگر فیملی سے تعلق رکھنے والا شوہر چند دن کہیں باہر گذارنے کے بعد واپس گھر پہنچنے پر اپنی بیگم سے پوچھے کہ۔۔۔۔۔۔،،

 ”جان تم نے مجھے مس کیا,تو جواب میں برگر بیگم کسی ہیروٸن کی طرح توبہ شکن ادا کے ساتھ کہے گی اوہ ڈارلنگ۔۔۔۔! مس یو ٹوو مچ سویٹ ہارٹ۔ 💕

اور 

دیسی فیملی کا شوہر بیچارہ چھ ماہ بعد مزدوری کر کے گھر پہنچنے پر اگر بد قسمتی سے بیگم کے دوپٹے کو پلو سے پکڑ کر پوچھ بیٹھے۔۔۔۔۔۔،،

 ”نی شاداں تینوں میری یاد آٸی سی۔۔۔۔۔۔۔تو یہ دیسی شاداٸیں آگے سے غراتے ہوٸے جواب دیں گی۔۔۔۔۔۔،،

" ,پراں مر وے,کوٸی حیا نوں ہتھ مار۔۔۔۔۔🙉🙉

ایک چروہا اور لاہوری

ایک چرواہا اپنا ریوڑ لے کر جا رہا تھا کہ ایک آدمی کا ادھر سے گذر ہُوا۔

کہنے لگے اگر میں بتادوں یہ کتنی  بھیڑیں ہیں تو کیا میں ایک بھیڑ لے سکتا ہوں؟🙂🙂


طنزومزاح

اُن تمام شوہروں کو میرا عقیدت بھرا سلام جو اپنی بیگمات کی شاپنگ کے لیے ان کے ساتھ جاتے ہیں ۔ یہ کپڑے کی دکان پر بیس شاپنگ بیگ پکڑے بیگم کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں ، بیگم تھان پہ تھان نکلوائے جاتی ہیں اور آخر میں یہ کہہ کر دکان سے باہر نکل آتی ہیں کہ ’’سارے پرانے ہیں‘‘۔اس دوران شوہر صاحب بھی دکاندار سے نظریں چار کرنے کی بجائے تیزی سے بیگم کے پیچھے ہولیتے ہیں۔خواتین کی شاپنگ میں شوہروں کا ساتھ جانا جہاد سے کم نہیں۔میں کئی ایسے شوہروں کو جانتا ہوں جن کی بیگمات صرف اس لیے انہیں اپنے ساتھ مارکیٹ لے کر جاتی ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر انہیں رش میں دہی بڑے کی پلیٹ میں مزید ’’پاپڑی‘‘ ڈلوانے بھیج سکیں۔ ایسی بیویاں گھر سے ساڑھے تین سو روپے پرس میں ڈال کر نکلتی ہیں اور کپڑے کا ہر وہ تھان کھلوا کرچیک کرتی ہیں جس کی قیمت 1500 روپے میٹر ہو۔شوہر دبا دبا اعتراض کرے تو بھری مارکیٹ میں ایسی ’’گھوری ‘‘ ڈالتی ہیں کہ پہلے وہ بوکھلا کر اِدھر اُدھر دیکھتاہے ، پھر جبراً مسکرانے لگتا ہے۔دُکھ کی بات تو یہ ہے کہ اکثر خواتین اپنے شوہروں کو ایسی جگہ بھی شاپنگ کے لیے لے جاتی ہیں جہاں مردوں کا داخلہ ممنوع ہے، مرد بیچارا دکان سے باہرکھڑا کھڑا تھک جاتاہے تو ذرا دم لینے کے لیے کسی قریبی بنچ پر بیٹھنے کی کوشش کرتاہے اور اسی اثناء میں کسی قریبی دکاندار کی جھڑک سن کر جلدی سے دوبارہ کھڑا ہوجاتاہے۔

’’شاپنگ مع شوہر‘‘ کی دلدادہ خواتین کو یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کی پسند کا سوٹ خریدیں لہٰذا ہر ’’پرنٹ‘‘ شوہرکو چیک کرواتی ہیں، شوہر بیچارہ ہونقوں کی طرح سرکھجاتا رہتا ہے اوربالآخر کچھ سمجھ نہیں آتا تو انگلیاں گھماتے ہوئے کسی ایک کپڑے پر انگلی رکھ دیتا ہے اور پیار بھرے انداز میں بیوی کی طرف دیکھتاہے جس کی آنکھیں شعلے برسا رہی ہوتی ہیں۔’’آ پ کو تو ہر بکواس ڈیزائن پسند آجاتاہے‘‘۔ شاپنگ کے دوران شوہر کی پسند کی ایک بھی چیز نہیں خریدی جاتی لیکن چونکہ شوہر پر فرض ہے کہ وہ بیوی کی خریدی ہوئی ہر چیز پر پسندیدگی کا اظہار کرے لہٰذا بیویاں بڑے فخر سے اپنی ہمسائیوں کو بتاتی ہیں’’یہ جوتی میرے شوہر نے خود پسند کی تھی‘‘۔

مرد نے شاپنگ کرنی ہو تو کسی ایک دکان میں گھس کر زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے میں ساری شاپنگ کرکے نکل آتاہے، لیکن خواتین چھان پھٹک کی قائل ہوتی ہیں۔ یہ کھجوریں بھی خریدنے جائیں تو ’’عجوہ‘‘ کی ڈیمانڈ کرتی ہیں اور تسلی ہوجائے تو اطمینان سے پرس کھول کر کہتی ہیں’’دس روپے کی دے دو‘‘۔ایسی خواتین کو گھر کے قریب والی مارکیٹ کا کوئی کپڑا پسند نہیں آتا، انہیں باجی اُلفت جو پٹی پڑھا جاتی ہیں یہ اُسی پر اڑ جاتی ہیں کہ ’’اچھرہ ہی جانا ہے‘‘۔وہاں بھی انہیں وہ دکان زیادہ پسند آتی ہے جہاں دکاندار کپڑے کا ریٹ بے شک زیادہ لگاتا ہے لیکن ساتھ فروٹ چاٹ کی پلیٹ منگواتاہے۔اکثر شوہروں کو یہ شکایت ہے کہ بیگمات کی شاپنگ کے دوران وہ رُل جاتے ہیں، بیگم ایک دفعہ دکان میں گھس جائے تو پھر مسڈ کال کے ذریعے ہی باہر آتی ہے اور آتے ہی دکاندار کو کوسنے دینے لگتی ہے کہ’’ کم بخت چھ سو کا سوٹ ہزار روپے میں دے رہا تھا‘‘ ۔جو بیویاں دکان کے اندر بھی شوہروں کو ساتھ لے جاتی ہیں ان کے شوہروں کی حالت دیکھنے والی ہوتی ہے، بیگم دکاندار سے سوٹ کی قیمت کا بھاؤ تاؤ کر رہی ہوتی ہیں اور یہ دونوں بچے گود میں اٹھائے حسرت سے دائیں طرف کھڑی دوشیزہ کو دیکھ کر آہیں بھر رہے ہوتے ہیں۔ایسے میں ان کی بیگم چیخ کر بھی پوچھیں کہ ’’کیا یہ سوٹ لے لوں؟؟‘‘ تو اکثر انہیں سنائی نہیں دیتا اور سنائی دے بھی جائے تو بوکھلا ہٹ میں منہ سے اتنا ہی نکلتاہے’’ہاں دونوں میری گود میں ہیں‘‘۔

زنانہ شاپنگ کا سب سے بڑا شکار وہ دکاندار ہوتاہے جو سارا دن ’’باجی باجی‘‘ کرتے کرتے گھر میں بھی کئی دفعہ بیوی کو باجی کہہ بیٹھتاہے اور پھر اس کی زندگی میں صرف ’’باجیاں‘‘ ہی رہ جاتی ہیں۔کچھ خواتین کو شاپنگ کے دوران اپنے شوہر کا بڑا خیال رہتا ہے، یہ اس پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہتیں لہذا اکثر رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ دیتی ہیں کہ ’’شاپنگ بیگ تم پکڑ لو اور بٹوہ مجھے پکڑا دو‘‘۔یہ پیکو اور دوپٹے رنگنے والے کے پھٹے پر بھی شوہر کو تنگ سی گلی میں اپنے ساتھ ہی رکھتی ہیں بلکہ کئی دفعہ تو خود بیڈ شیٹ کے ڈیزائن دیکھنے لگ جاتی ہیں اور شوہر کو حکم دیتی ہیں ’’جاؤ شکیل! پیکو والے سے میرا دوپٹہ لے آؤ‘‘۔ شکیل صاحب ہونقوں کی طرح منہ اٹھائے پیکو والے کے پاس پہنچتے ہیں اور دوپٹے کا تقاضا کرتے ہیں، پیکو والا دوپٹوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے’’پاء جی کیہڑا دوپٹہ سی؟؟؟‘‘۔ اور شکیل صاحب کی شکل دیدنی ہوتی ہے۔

اکثر خواتین کو یہ شکایت ہے کہ ان کے شوہر ان کے ساتھ کبھی شاپنگ نہیں کرنے جاتے، حالانکہ جو شوہر بیگم کے ساتھ شاپنگ نہیں کرنے جاتا وہ اصل میں ایک دفعہ شاپنگ کے لیے ہمراہ جاچکا ہوتاہے ۔نئے شادی شدہ جوڑوں کو ایک پلیٹ میں کھانا کھانے اور اکٹھے شاپنگ کرنے کا بڑا شوق ہوتاہے تاہم شادی کے ایک سال بعد ہی دونوں کو احساس ہوجاتاہے کہ ’’قدر کھو دیتاہے روز اکٹھے ہونا‘‘۔اس کے باوجود کئی ایسے جوانمرد بھی ہیں جو شادی کے دن سے آج تک اپنی بیگم کے ہمراہ خریداری کرتے ہیں بلکہ کئی ایسے بھی ہیں جن کی اپنی خریداری بھی ان کی بیگم ہی کرتی ہیں۔ ایسے مردوں سے اگر پوچھا جائے کہ آپ شیو کس ریزر سے کرتے ہیں تو بے نیازی سے فرماتے ہیں’’بس جو بیگم خرید لائیں‘‘۔یہ بڑے مستقل مزاج شوہر ہوتے ہیں، ان میں سے کئی ایک کو تو یہ بھی پتا ہوتاہے کہ لان ویل کے کٹ پیس کون سی دکان پر اچھے ملتے ہیں۔یہ بیگم کے ساتھ شاپنگ کر رہے ہوں تو اِس اذیت ناک ماحول میں بھی اتنا انجوائے کرتے ہیں کہ کئی دفعہ کون آئس کریم کھاتے ہوئے بیگم سے شرط لگالیتے ہیں’’چلو دیکھتے ہیں پہلے کون ختم کرتاہے‘‘۔

تازہ ترین سائنسی تحقیق کے مطابق زنانہ شاپنگ تین گھنٹے سے بارہ گھنٹے تک محیط ہوسکتی ہے خواہ جرابیں ہی خریدنی ہوں۔خواتین کے ہمراہ شاپنگ پر جانے والے اکثر شوہر طویل ترین ڈیوٹی دینے کے باجود بیویوں کی بدترین نفرت کا شکار بن جاتے ہیں اور نفرت کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ بیوی چھ گھنٹے لگا کر جو سوٹ پسند کرتی ہے، گھر آکر ناپسند ہوجاتاہے اور اس کا سارا الزام شوہر کے سر آتاہے’’میں کہہ بھی رہی تھی تھوڑی دیر صبر کرجاؤ میں کوئی اور ڈیزائن دیکھ لوں لیکن تمہیں تو گھر آنے کی پڑی ہوئی تھی‘‘۔ اب شوہر بیچارہ کیا بتائے کہ دو دفعہ پیپسی پی تھی، گھر نہ آتا تو کہاں جاتا؟؟؟‘‘ ۔زنانہ شاپنگ کے دوران اکثر یہ بھی ہوتاہے کہ بیگم جس دکاندار کو مہنگا سوٹ بیچنے پر برا بھلا کہہ کر نکل آتی ہیں آدھے گھنٹے بعد شوہر کو اُسی کے پاس وہی سوٹ دوبارہ لینے کے لیے بھیج دیتی ہیں نتیجتاً کئی دفعہ شوہر کی واپسی 1122 کے ذریعے ہوتی ہے۔جو خواتین چاہتی ہیں کہ دوران شاپنگ ان کے شوہر بھی ان کے ساتھ رہیں انہیں چاہیے کہ شاپنگ کے لیے جاتے وقت اپنی کوئی سہیلی بھی ساتھ لے جایا کریں، انشاء اللہ شوہر صاحب نہ چاہتے ہوئے بھی پل پل ساتھ رہیں گے، یہ میرا تجربہ، سوری مشاہدہ ہے۔

چرواہا بولا چلو تمہاری بات مان لیتا ہوں !

آدمی  بولا یہ 381 بھیڑیں ہیں اور جلدی سے ایک بھیڑ اُٹھا کر  گردن پر رکھ لی۔😁😁

چرواہا بولا اگر میں بتا دوں کہ تم کون ہو تو یہ واپس کر دوگے ؟

آدمی بولا  ہاں کر دوں گا!😆😆

چرواہا کہنے لگا تم " لاہوری " ہو !😉😉😉

لاھوری نہائت حیرانی سے بولا تمہیں کیسے پتہ چلا؟  😮😮😮

چرواہا بولا

 

پہلے یہ کھوتی کا بچہ نیچے رکھو پھر بتاتا ہوں..!!

😂😜😂😂😂😝😝😝😝


تین میراثی

تین مراثی ایک جگہ سے گزر رہے تھے کہ انکی نظر ایک بینر پر پڑی جس پر لکھا تھا "یہ زرعی زمین برائے فروخت ھے"

اُن میں سے ایک مراثی نے کہا کیوں نا یہ جگہ ہم خرید لیں۔۔۔۔

دوسرے نے استفسار کیا مگر ہم یہاں کاشت کیا کریں گے؟

تیسرے نے جواب دیا مکئی کاشت کریں گے۔۔۔

پہلے نے کہا نا جی کون مکئی دی راکھی کرے ہم یہاں سبزی کاشت کریں گے۔۔۔۔


دوسرے نے کہا سبزی پر محنت بھی بہت ھے اور پہرہ اسکا بھی دینا پڑے گا کیوں نا ہم یہاں گنے کی فصل کاشت کریں خرچہ بھی کم آمدن بھی خوب۔۔۔۔


تیسرے نے کہا ہاں درست مگر خدشہ ھے کہ یہ جو قریب میں خانہ بدوش بیٹھے ہیں سارے گنے چُوپ نا جانڑ؟


پہلے نے مشورہ دیا کیوں نا ہم خانہ بدوشوں کی جُھگیاں جلا ڈالیں؟

دوسرے نے ہاں میں ہاں ملائی اور تیسرے نے آگے بڑھ کر جُھگیوں میں آگ لگا ڈالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیکھتے ہی دیکھتے تمام جُھگیاں نظر آتش ہو گئیں اور ایک بزرگ سینہ کوبی کرتے ہوئے جُھگیوں سے نکلا اور سوال کیا ہمارا قصور کیا تھا؟


تینوں یک زبان ہو کر بولے ہُنڑ چُوپ نا چُوپدا نئیں۔۔۔۔

چُوپ۔۔۔۔۔چُوپ ہُنڑ.۔۔۔۔ہور چُوپ۔۔۔چُوپدا نئیں؟؟؟


 😂🤣😂🤣😂🤣😂🤣😂🤣

ناڑہ \ ازاربند

از قلم : مبشر عزیز


نشرمکرر


بڑے عرصے بعد میری ایک صاف ستھری تحریر جو شائید نفیس طبع لوگوں کے مزاج پر گراں نہ گزرے لیکن اگر گراں گزرے تو انہیں میرا مشورہ ہے کہ میری تحریروں سے پونے نو گز دور رہا کریں بلکہ اس بدذوقی کے ساتھ ادب سے بھی کوسوں دو رہا کریں ۔۔۔شکریہ)


یہ تحریر دھوتی کے بعد ناڑے کی افادیت پر ہے اور جو دوست ناڑہ استعمال نہیں کرتے ہیں وہ فوری طور پر اس کا استعمال کریں۔ ویسے شنید ہے کہ ملک کی ایک اعلٰی شخصیت ابھی تک الاسٹک باندھتی ہے لیکن امید ہے اگر میری تحریر ان تک پہنچ گئی تو وہ فوراً سے پیشر اسے پہننا ترک کردیں گے۔


یہ ہمارے پرائمری سکول کے دور کی بات ہے جب مابدولت جماعت پنجم کے ہونہار طالبعلم تھے اور اپنی قطار میں سب سے آگے ٹاٹ پر براجمان ہوتے تھے۔   اس وقت پنجم جماعت کا بچہ سچ مچ بچہ ہی ہوتا تھا اور اس کی شلوار میں لاسٹک ہوتا تھا تاکہ بتقاضائے بشریت زور کی صورت میں فوراً سے پیشتر تیاری پکڑی جاسکے۔  اس دن میں اچانک اٹھنے لگا تو “کٹک“ کی آواز کے ساتھ مجھ پریہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ میرا لاسٹک داغ مفارقت دے چکا ہے۔  اب بڑی سوچ بچار کے بعد میں نے منصوبہ بنایا کہ شلوار کو ہاتھ سے سنبھالا دے کر باہر بیت الخلا میں جاکر، الاسٹک کو بیلٹ کی طرح باندھ لوں گا۔ 

لیکن قسمت کی خرابی دیکھیے استاد جی نے ایک سوال حل کرنے کو دیا اور مجھے کہا ”جواب چیک کرواؤ؟“

میں نے بیٹھے بیٹھے سلیٹ آگے کردی تو وہ غصے سے آگ بگولا ہوگئے کہ کھڑے ہوکر چیک کرواؤ۔

اب کھڑے ہونے کا مطلب تھا کہ سوال جواب سب کچھ چیک ہوجاتا اس لئے میں نے بیٹھنے رہنے ہی میں عافیت سمجھی اور حد درجہ شرمیلے ہونے کی وجہ سے بتا بھی نہ پایا۔  استاد جی کا پارہ آسمان کو چھونے لگا اور اس سے پہلے وہ لتر پریڈ شروع کرتے، اللہ بھلاکرے میرے ساتھ بیٹھے جبران کا کہ جس نے کہا کہ ”استاد جی اس کےپیٹ میں درد ہوگا“ اور پھر میرے سے پوچھا تو میں نے کہا ”بھائی یہ مسئلہ ہوگیا ہے“ـ

اس نے استاد جی کو بتایا تو میری قطار کے ساتھ والی قطار میں بیٹھے اللہ ڈتے نے (اللہ اس کا بھی بھلا کرے) اپنی دھوتی مطلب اپنے بستے کو کھول کر مجھے دیا (گاؤں سے آنے والے لڑکے دھوتی نما کپڑے میں کتب باندھ کر لایا کرتے تھے) میں نے وہ دھوتی اپنی کمر کے گرد باندھ  لی اور اللہ ڈتے نے قلم کی مدد سے بڑی مہارت کے ساتھ لاسٹک میری شلوار میں ڈال دیا اور میں نے اس کو پہن کر سکون کا سانس لیا۔


گھر پہنچ کر میں نے اعلان کردیا کہ آئندہ میں نے ناڑے کا ہی استعمال کرنا ہے۔  ناڑہ باندھنا مجھے فوراً آگیا کیونکہ میں تسموں والے جوتے پہنتا تھا جو مجھے باندھنے بھی آتے تھے۔  آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ میرا یہ فیصلہ بروقت اور بہت عمدہ تھا۔ 


لیکـــــــــن ذہن میں رہے ناڑہ بانــــــــــدھنا اور پھر اس کو کھــــــــــولنا بھی ایک فن ہے۔   وگرنہ اس کے سنگین نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔۔۔۔۔ ہوتا کچھ یوں تھا کہ سکول سے واپسی پر اکثروبیشتر بچوں کو ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ سکول کے بیت الخلا تو جنات کی پسندیدہ جگہ تھی۔   اب ہوتا کچھ یوں کہ سکول سے واپسی پر نعرہ لگتا امی جی ۔۔۔گانٹھ لگ گئی۔۔۔۔۔۔ کیونکہ جلدبازی میں ناڑہ کھولنے سے ڈبل گانٹھ لگ جاتی تھی جو صرف دانتوں سے کھلتی تھی یا پھر ناکامی کی صورت میں قینچی سے ناڑے کو کاٹ کر ہی بچے کو بیت الخلا میں بھیجا جاتا تھا۔ اس کے بعد جو کان پھاڑ دھماکہ سننے کو ملتا تھا اس سے تو آپ لوگ واقف ہی ہوں گے۔۔۔(قینچی کی عدم دستیابی کی صورت میں شلوار خراب کرنے پر چپیڑیں بونس میں ملتی تھیں)ـ


اب ہم ہائی سکول میں پہنچ گئے جہاں ہم پر یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ لاسٹک پہننا ایک جرم ہے جس کی سزا وقتاً فوقتاً ان معصوم طلبا کو ملتی رہتی تھی جو اس کو پہن کر آتے تھے۔ 

ہوتا کچھ یوں کہ جب بھی ان میں سے کوئی کھڑا ہونے لگتا تو اس کے پیچھے بیٹھا ”شر پسند“ اس کی شلوار کو نیچے سے پکڑ لیتا اور نتیجتاً وہ ایک “مست ملنگ“ کے روپ میں جماعت میں  کھڑا ہوجاتا تھا۔ (ویسے میری سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آئی ہے کہ مست ملنگوں کو شلوار سے اتنی نفرت کیوں ہوتی ہے؟)ـ

 

اب ہمیں نہر پر نہانے کے لئے بھی اجازت مل چکی تھی کیونکہ ہائی سکول میں جانےکا مطلب تھا کہ ہم بڑے ہوگئے ہیں اور چھوٹی نہر اور ٹیوب ویل پر نہا سکتے ہیں۔   ایک دفعہ ہم سب دوست نہر پر نہا رہے تھے اور ہم نے اپنی شلواروں میں ہوا بھرلی تھی اور خوب لطف اندوز ہورہے تھے (نہر پر نہانے والے اس ہوا بھرنے سے بخوبی واقف ہوں گے)۔  نہانے کے درمیان میں وقفہ آیا تو ہم سب باری باری نہر کے کنارے پر دونوں ہاتھ رکھتے اور اچک کر اوپر بیٹھ جاتے۔ 

جب سرفو کی باری آئی اور وہ اچک کر اوپر کو ہوا تو اس کا مریل لاسٹک گیلی شلوار کا وزن برداشت نہ کرسکا اور شلوار سمیت ہی نہر میں ڈھیر ہوگیا اور سرفو صاحب ”جل پری“ بنے باہر کنارے پر  آکر بیٹھ گئے۔  ہم سب کو ہنس ہنس کر زمین پرلوٹ پوٹ ہوتے دیکھ کر، اس نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے، ایک چابکدست مینڈک کی طرح دوبارہ نہر میں چھلانگ لگا دی۔


ناڑے کی عظیم افادیت تو مجھے اس دن پتا لگی، جب ایک مہینہ قبل میں اپنے دوست اقبال مرلی کے ساتھ، ایک دوردراز کے گاؤں میں ایک شادی میں گیاہواتھا۔  

واپسی پر آدھی رات کے سمے ایک ویرانے میں اچانک کھٹک کی آواز آئی اور جنریٹر والی لائیٹ سکرین پر روشن ہوگئی۔۔۔۔۔۔ “دھت تیری کے لگتا ہے جنریٹر بیلٹ ٹوٹ گئی“ میں بولا اور گاڑی ایک طرف روک دی۔

مجھے ہر طرف درختوں پر چڑیلیں اور جن بیٹھے نظر آنے لگے۔   لیکن مرلی نے تیزی سے کار سے اتر کر کار کا بونٹ کھولا اور اعلان  کیا ”بغیر جنریٹر کے کار نہیں چلائی جاسکتی“ اور ایک طرف کھڑے ہوکر شلوار کھولنی شروع کردی۔

“یار! کوئی چڑیل نظر آگئی ہے کیا؟“ میں گاڑی کا شیشہ اوپر کرتے چیخا۔ ( ہم نے سنا ہوا تھا کہ اگر جن یا چڑیل سے واسطہ پڑجائے تو بندہ اپنے فطری لباس میں آجائے تو وہ بھاگ جاتے ہیں۔)۔۔۔۔

“کدھر ہے!“ وہ چیخا اور کار کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا۔

“ابے! چڑیل نہیں آئی تھی تو کیوں ناڑہ کھول رہا تھا؟ ۔۔۔۔۔ چل! باہر دفع ہوجا اور بے وقت کی برسات اندرنہ کردینا“ میں نےسوچا کہ ” انھےوا “ کھانے کا نتیجہ ہوگا۔

“بےوقوف! ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔اس ویرانے میں مکینک تو ہے کوئی نہیں اس لئے ناڑے کو بیلٹ کے طور پر باندھنا پڑے گا“ مرلی غصے سے بولا۔

پھر اس نے کچھ دیر میں بونٹ بند کیا اور مجھے کہا“سٹارٹ کر گاڑی“ 

میرے گاڑی سٹارٹ کرتے ہی جنریٹر کے بتی غائب ہوگئی۔   

مرلی نے بتایا ایک دفعہ اس کی گاڑی ویرانے میں خراب ہوگئی تھی۔ رسی کی عدم موجودگی میں، ہم دوست ناڑوں کو باندھ کر لمبی رسی بناکر، ایک ٹریکٹر کے پیچھے باندھ کر، ورکشاپ تک لے گئے تھے۔

میں دل سے مرلی اور ناڑے کا معترف ہوگیا اور گاڑی کے اوزاروں میں ناڑے کا اضافہ کردیا۔


میرے کچھ دوستوں کے ناڑے اتنا دیدہ زیب ہوتے تھے کہ میرا جی چاہتا تھا کہ اپنی جینز میں بیلٹ کی جگہ انہیں ڈال لوں۔ لیکن ان کا پھن اتنا موٹا ہوتا تھا بیلٹ کی جگہ نہیں ڈالا جاسکتا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ پراندوں کے سِروں پر باندھے گئے ”پھرلو“ کو ان ناڑوں کے سروں پر شلوار میں ڈالنے کے بعد ہی پرویا جاتا ہوگا۔ میرے ان بانکے دوستوں نے اپنی قمیض کے چاکوں میں سے ناڑوں کے خوبصورت سرے لٹکائے ہوتے تھے اور اس الہڑ مٹیار کی طرح چلتے جس کی کمر پر خوبصورت پراندہ ہلتا نظر آتا تھا۔۔۔۔ اب نہ وہ پراندے والیاں رہیں نہ وہ ناڑے والے۔۔۔۔ 


درج ذیل  قصے میرے باذوق  قارئین نے بیان کئے ہیں جو من و عن پیش کیا جارہے ہیں۔ اللہ آپ لوگوں کا ذوق بھی بلند کرے۔۔۔۔۔


پہلا قصہ (خلیفہ یوسف زئی)

جناب ایک ناڑے کی استادی والا واقعہ مجھے میرے سیٹھ صاحب نے سنایا تھا وہ کہتے ہیں ایک دفعہ انکے ایک مرحوم دوست اللہﷻ انکی مغفرت فرماۓ وہ انکے ساتھ کوٸٹہ کہ نواحی علاقہ پشین میں ایک شادی پر گۓ جو ٹویوٹا سزوکی میں سفر کر رہے تھے واپسی رات کہ وقت ہوٸ اور راستہ میں موسم خراب ہو گیا جب واٸپر لگایا تو وہ چلے نہ اور بارش بھی سردی کی پہلے تو کچھ سمجھ نا آیا پھر مرحوم نے روایتی استادی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ فوراً آناً فاناً اپنا ناڑا کھولا پھر واٸپر کہ بیچ میں باندھا اور ایک سرا مرحوم نے خود سنبھالا اور دوسرا ہمارے سیٹھ صاحب نے اور اس طرح وہ اپنا سفر مکمل کر سکے۔۔۔۔۔


دوسرا قصہ (اللہ بخش عاصی)

میں نے بطور ڈسپنسر اپنی سروس پوری کی ہے. دیہاتوں میں اکثر ڈرپ لگوانے کے لیے لوگ گھروں کا انتخاب کر تے ہیں. اپ گھر آ کر ڈرپ لگا دیں گے. ٹھیک ہے جی لگ جائے گی سامان تو آپ کے پاس پورا ہے. جی جی. فلاں ڈاکٹر صاحب نے دی ہے. چلیں چلتے ہیں. ڈرپ لٹکانے کے لیے پورا گھر ڈوری ڈھونڈنے لگ جاتا. میں ایسے ایک نعرہ مستانہ لگاتا. ناڑہ لے آو کام چل جائے گا. سو میں سے 99 گھروں میں ناڑہ سے باندھی ڈرپ لگائیں ہیں.


اس کے علاوہ ناڑے کے کچھ درج ذیل فوائد جو مجھے یاد ہیں لکھ رہا ہوں۔


۔ بوری (بیوی نہ سمجھ لیجئے گا “ویسے سمجھے آپ ٹھیک ہی ہیں“ )  کا منہ باندھنے کے کام آسکتا ہے۔ 

۔ پراندہ نہ ہونے کی صورت میں پراندے کا کام بھی دے سکتا ہے اگر ڈیزائین والا ہو تو۔۔۔۔

۔ ہتھکڑی کی عدم موجودگی میں چور کے ہاتھ بلکہ پاؤں بھی باندھے جاسکتے ہیں

۔ رسی نہ ہونے پر بکرے کو باندھا جاسکتا ہے۔

۔ چھوٹے بچوں میں رسہ کشی کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے۔

ـ کمرے کے کونے میں باندھ کر تولیہ سوکھنے کے لئے لٹکایا جاسکتا ہے۔

ـ چوبارے پر سے سبزی کی ٹوکری لٹکانے کے کام آسکتا ہے۔

ـ لکڑیوں کا گٹھا باندھنے کے کام آسکتا ہے۔

۔ سکول کی کتابیں باندھنے کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے۔

۔ سائیکل یا بائیک کے پیچھے کسی چیز کو باندھنے کے کام بھی آسکتا ہے۔


اگر  کوئی فائدہ رہ گیا ہو تو آپ اس فہرست میں شامل کرواکر اس عظیم کاوش میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔۔۔


شکریہ

ڈاکٹر اور پاگل مریض

 پاگل خانے کا ڈاکٹر نئے داخل ہونے والے مریضوں کا معائنہ کر رہا تھا. ۔۔۔

ایک پاگل اسے سنجیدہ اور ہوش مند نظر آیا ڈاکٹر نے اسے پوچھا کہ تمھیں یہاں کیوں لایا گیا تم تو اچھے خاصے ہو. پاگل نے جواب دیا جناب میں صحت مند ہوں ٹھیک ہوں ۔۔

دراصل ہوا یہ میں نے ایک عورت سے شادی کر لی جس کی ایک اٹھارہ سال کی جوان لڑکی تھی وہ  بھی اپنی ماں میرے ساتھ گھر رہنے لگی ۔ اتفاق  سے وہ لڑکی میرے باپ کو پسند آ گئی اور اس نے اس سے نکاح کر لیا اس دن سے میری بیوی میرے باپ کی ساس بن گئی کچھ عرصے کہ بعد جو میری بیوی کی لڑکی جو میرے باپ کی بیوی  تھی کہ ہاں اولاد ہوئی یہ بچہ رشتے کہ لحاظ سے میرا بھائی ہوا کیونکہ وہ میرے باپ کا لڑکا ہے مگر ادھر میری بیوی کا نواسا بھی ہوا گویا میں اپنے بھائی کا نانا بن گیا 

کچھ دنوں بعد میری بیوی کہ ہاں بھی بچہ ہوا اس دن سے میرے باپ کی بیوی سوتیلے بھائی کی بہن ھو گئی مگر وہ اس کی دادی بھی ہو گئی کیونکہ وہ اس کہ یعنی میرے باپ پوتا تھا اس طرح میرا بچہ اپنی دادی کا بھائی بن گیا اب زرا سوچیے ڈاکٹر صاحب میری سوتیلی ماں یعنی کہ میری بیوی کی لڑکی میرے بیٹے کی بہن بھی ھو گئی تو میرا بیٹا میرا ماموں بن گیا اور میں اس کا بھانجا جب کہ میں خود اس کا نانا بھی ہوں اور باپ کا لڑکا جو میری بیوی کی لڑکی کا بیٹا ہے وہ میرا بھائی بھی ہے میرا نواسہ بھی ڈاکٹر نے کہا خدا کا واسطے 🙏 بند کرو ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گا 

🤭🤭🤭😆😆😆😂😂😂😂✌️✌️

     ایک بزرگ اور اس کا گھامڑ نوکر

ﺍﯾﮏ ﺑﺰﺭﮒ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻮﮐﺮ ﮐﻮ سرزنش ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮔﮭﺎﻣﮍ ﮨﻮ ۔ ﺩﯾﮑﮭﻮ

ﻣﯿﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎ ﻧﻮﮐﺮ ﮨﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺩﻭﺭﺍﻧﺪﯾﺶ ﮐﮧ ﻣﯿﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺳﮯ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﺎ

ﺑﻠﺐ ﻣﻨﮕﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﺗﻞ ﻣﭩﯽ ﮐﮯ ﺗﯿﻞ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﻣﻮﻡ ﺑﺘﯿﺎﮞ

ﺑﮭﯽ ﻟﮯ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﺑﻠﺐ ﻓﯿﻮﺯ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻻﻟﭩﯿﻦ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﭼﻞ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ

ﭼﻤﻨﯽ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺋﮯ ﯾﺎ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻣﻮﻡ ﺑﺘﯽ ﺭﻭﺷﻦ ﮐﯽ ﺟﺎﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ۔ ﺗﻢ ﮐﻮ

ﭨﯿﮑﺴﯽ ﻟﯿﻨﮯ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺗﮭﺎ ، ﺗﻢ ﺁﺩﮬﮯ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﭩﮑﺎﺗﮯ ﺁﮔﺌﮯ ۔ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺟﯽ

ﭨﯿﮑﺴﯽ ﺗﻮ ﻣﻠﺘﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻮﭨﺮ ﺭﮐﺸﺎ ﮐﮩﺌﮯ ﺗﻮ ﻟﯿﺘﺎ ﺁﺅﮞ ۔ ﻣﯿﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎ ﻧﻮﮐﺮ ﮨﻮﺗﺎ

ﺗﻮ ﻣﻮﭨﺮ ﺭﮐﺸﺎ ﻟﮯ ﮐﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﺎ ﮐﮧ ﺩ ﻭﺑﺎﺭﮦ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺕ ﻧﮧ ﭘﮍﺗﯽ ۔

ﻧﻮﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺁﻗﺎ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﻠﮯ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﻟﯽ ۔ ﭼﻨﺪ ﺩﻧﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﺍﺗﻔﺎﻕ

ﺳﮯ ﺁﻗﺎ ﭘﺮ ﺑﺨﺎﺭ ﮐﺎ ﺣﻤﻠﮧ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﮑﯿﻢ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﻻﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ

ﺑﮭﯿﺠﺎ ۔ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﺣﮑﯿﻢ ﺻﺎﺣﺐ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ۔ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ

ﺗﯿﻦ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﮔﺌﮯ ۔ ﺍﯾﮏ ﮐﯽ ﺑﻐﻞ

ﻣﯿﮟ ﮐﭙﮍﮮ ﮐﺎ ﺗﮭﺎﻥ ﺗﮭﺎ ۔ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﭨﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﮐﮯ ﮐﺎﻧﺪﮬﮯ

ﭘﺮ ﭘﮭﺎﺅﮌﺍ ۔

ﺁﻗﺎ ﻧﮯ ﻧﻮﮐﺮ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ :

" ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﺎﮞ "

ﻧﻮﮐﺮ ﻧﮯ ﺗﻌﺎﺭﻑ ﮐﺮﺍﯾﺎ ﮐﮧ :

" ﺟﻨﺎﺏ ﻭﯾﺴﮯ ﺗﻮ ﺣﮑﯿﻢ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﮩﺖ ﺣﺎﺫﻕ ﮨﯿﮟ ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﻥ

ﺩﺧﻞ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ۔ ﺧﺪﺍﻧﺨﻮﺍﺳﺘﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﻭﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ

ﺩﺭﺯﯼ ﮐﻮ ﻟﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮐﻔﻦ ﮐﺎ ﮐﭙﮍﺍ ﺳﺎﺗﮫ ﻻﯾﺎ ﮨﮯ ۔ ﯾﮧ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺻﺎﺣﺐ

ﻏﺴﺎﻝ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﮔﻮﺭﮐﻦ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻟﮯ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺑﮭﺎﮔﻨﺎ ﻧﮧ

ﭘﮍﮮ ۔

ﺍﺑﻦ ﺍﻧﺸﺎﺀ

کیمرا میں اور فیشن ایبل لوگ

ایک متناسب بدن کی دراز قامت خاتون میرے قریب سے گزریں تو میرا دل دھک سے رہ گیا اور میں نے اپنی بیگم کے کندھے کو جھنجھوڑ کر کہا۔

تم نے دیکھا؟ تم نے دیکھا؟

اس نے بیزار ہو کر ادھر ادھر دیکھا اور کہا کیا دیکھا؟

میں نے ہکلاتے ہوئے کہا وہ خاتون اس نے صرف ایک قمیض پہن رکھی ہے اور اور شاید شلوار پہننا بھول گئی ہے۔

کچھ حیا کرو۔ اس نے مجھے ڈانٹا۔ تمہیں اونچی سوسائٹی کی محفلوں میں بیٹھنے کا کچھ تجربہ نہیں۔ اس نے شلوار نہیں چست پاجامہ پہن رکھا ہے، جو گھٹنوں سے ذرا نیچے آ کر ختم ہو جاتا ہے۔ ان دنوں یہی فیشن ہے۔

اب غور کیا تو واقعی قمیض کے آخر میں دو چار گرہ کچھ تھا، لیکن پنڈلیاں عیاں تھیں۔ اس دوران ایک اور خاتون ویڈیو کیمرے کی زد میں آئی تو میرا دل دوبارہ دھک سے رہ گیا۔

بیگم اب تم بتاؤ کہ اس خاتون نے کیا پہنا ہوا ہے۔ اگر کچھ پہنا ہوا ہے تو؟

بیگم نے مجھے بری طرح گھورا۔ تم اس عمر میں بھی باز نہیں آتے۔ کیوں ادھر ادھر تانک جھانک کر رہے ہو؟

بیگم میں اتنی دیر سے بیکار بیٹھا انگلیاں چٹخا رہا ہوں، کیا آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاؤں۔ میں نے غصے میں آ کر کہا اور میں تانک جھانک نہیں کر رہا۔ یہاں موجود اکثر خواتین مجھ سے تانک جھانک کروا رہی ہیں۔ آخر کیوں ایسے لباس پہنتی ہیں؟؟

ان دنوں یہی فیشن ہے۔ اس نے مسکرا کر کہا۔


اس دوران ایک نوجوان، قیاس تو یہی تھا کہ وہ ایک نوجوان تھا، عجیب زنانہ سے کپڑے پہنے مٹکتا ہوا ہمارے پاس سے گزر گیا۔

ہا ہائے میری بیگم نے لبوں پر ہتھیلی رکھ کر کہا یہ پتہ نہیں بندہ تھا یا زنانی؟

“ان دنوں یہی فیشن ہے”۔ میں نے بدلہ لے لیا۔

۔۔۔

Post a Comment

0 Comments