ستر برس کا بوڑھا مچھلی کا شکار کر رہا تھا کہ اسے آواز سنائی دی
" مجھے نکالو"
Fun |
آس پاس کوئی نہ تھا بوڑھا سمجھا کہ اس کے کان بجے ہیں
مگر پھر "مجھے نکالو" کی آواز آئی تو اس نے دیکھا پانی میں ایک مینڈک سر نکالے بول رہا تھا
اس نے پوچھا " کیا تم ہی انسانی آواز میں بولے ہو؟"
مینڈک نے جواب دیا "ہاں ، مجھے نکالو، پھر مجھے بوسہ دو میں دنیا کی حسین ترین لڑکی بن جاونگی۔ لوگ تم پر رشک کیا کریں گے کہ تمہاری بیگم کس قدر خوبصورت ہے ۔"
بوڑھے نے مینڈک کو پانی سے نکالا اور اسے جیب میں ڈال کے نگاہیں بنسی کی ڈوری پر ٹکا دیں۔
مینڈک نے کہا "کیا تم نے سنا نہیں کہ مجھے بوسہ دو تو میں دنیا کی حسین ترین لڑکی بن کر تمہاری بیوی کہلاؤں گی "
بوڑھا بولا: " اچھا ہے کہ میرے پاس بولنے والا مینڈک ہو ۔
۔
۔
۔
بجائے اس کے کہ دماغ کی چٹنی بنانے والی بیوی ہو"۔😅🤗
🤩
پینڈو عاشق
یوں تو میں گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے لاڈلا تھا لیکن والدہ محترمہ کو جب بھی موقع ملا انھوں نے میری جم کر دھلایٔ کی۔
اسکی بھی ایک خاص وجہ تھی وہ یہ کہ میں ابو جی کا لاڈلا تھا اور جب بھی وہ گھر آتے میں امی سمیت سب بہن بھایوں کی شکایتیں تیار رکھتا اسی کا نتیجہ تھا کہ ابو کی غیر موجودگی میں میری اکثر دھلایٔ ہو جاتی۔
یوں ہی وقت گزرتا گیا اور ہم گاوں میں پھرتے ہوے جوان ہو گۓ بارھویں کلاس کا نتیجہ آیا تو ہم پاس ہو گۓ جس کی امید بالکل بھی نہیں تھی۔
گھر والوں نے ہمیں شہر بھیج دیا اور یونیورسٹی میں ہمارا داخلہ ہو گیا۔
داخلہ ہوتے ہی ہمارے سوےْ ہوے ارمان جاگ اٹھے اور جوانی نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا
اب ہمیں شوق اٹھا کہ ساتھ میں ایک لڑکی بھی دوست ہونی چاہیے آخر اب ہم شہر میں رہتے ہیں
ہمیں ایک دوشیزہ پسند آگیٔ اب حال یہ تھا کہ دن رات ہم اسی کے خیالوں میں رہنے لگے۔
ایک دن ہم اسی حسینہ کے خیالوں میں گم تھے اور دل کیا کہ اس کی یاد میں کچھ گایا جاے۔ابھی ہم نے پہلا سُر اٹھایا ہی تھا تو ساتھ والے ہاسٹل سے کچھ لڑکے آگۓ پوچھنے پر پتا چلا کہ وہ سمجھے کہ یہاں کویُ فوت ہو گیا ہے اور ہم تعزیت کرنے آۓ ہیں۔اب ہم انہیں کیا سمجھاتے۔۔۔
خیر ایک دن ہمت کر کے فیصلہ کیا کہ اپنے عشق کا اظہار کیا جاۓ
ہم نے سر پہ معمول سے کچھ زیادہ تیل لگایا تا کہ اچھی چمک آۓ درمیان میں سے مانگ نکالی گاؤں سے لایا ہوا سپیشل کھسہ پہنا اور اوپر نیٔی پینٹ شرٹ پہن کے یونیورسٹی پہنچ گۓ۔اس حسینہ کا انتظار ایک جان لیوا کام تھا لیکن ہم نے بھی فلمیں دیکھ رکھی تھی اور پورا اعتماد تھا کہ وہ پہلی دفعہ ہی ہمارے عشق میں پاگل ہو جاۓ گی۔
کچھ دیر انتظار کے بعد وہ حسینہ دور سے آتی ہویٔ نظر آیٔ ہم برآمدے میں ایک ستون کے ساتھ پوزیشن سنبھال کے کھڑے ہوگۓ دل کی دھڑکن بھی تیز ہو گیٔ لیکن ہمیں اپنے اوپر مکمل اعتماد تھا سو جیسے ہی وہ پاس سے گزرنے لگی تو ہم نے گنگنانا شروع کر دیا اُس نے اچانک پیچھے مڑ کے دیکھا تو مجھے اس کی آنکھوں میں کچھ چمک نظر آیٔ تو میں نے بھی ہلکی سی آنکھ ماری اگلے ہی لمحے ایک موٹی سی گالی میرے کانوں سے ٹکرایٔ میں نے آج تک بنی نوح انسان سے ایسی گالی نہیں سنی تھی۔ اگلے ہی لمحے میں نے وہاں سے فرار میں ہی آفیت سمجھی۔
اس ناکامی نے مجھے بہت کچھ سکھایا لیکن میں بھی گاؤں سے آیا تھا ہار ماننا میری فطرت کے خلاف تھا اب میں نے طریقہ بدلنے کا فیصلہ کیا۔
کچھ دن بعد میں پھر اپنی پوزیشن پر پہنچ گیا اور حسینہ کا انتظار کرنے لگا۔
حسینہ وزن میں کچھ زیادہ تھی اس لیے دور سے آتی دکھایٔ دے رہی تھی۔
جیسے ہی وہ پاس سے گزرنے لگی تو میں نے اپنے منصوبے کے مطابق اس کا ہاتھ تھام لیا۔ہاتھ پکڑنے کی دیر تھی میں نے خود کو آسمان پہ اُڑھتا ہوا محسوس کیا اور ارد گرد ہزاروں خوبصورت ستارے تھے ہوش تب آیا جب دوستوں کی آواز کان میں پڑھی کہ تھپڑ کی زیادہ چوٹ تو نہیں لگی۔
اتنا زور کا تھپڑ مجھے تو اس کے عورت ہونے پر شق ہو رہا تھا۔
خیر اس کے بعد میں نے مزید رسوا ہونے سے توبہ کر لی
اور اپنی پھوپھو کی بیٹی کو ہاں کر دی جس کا رشتہ پہلے سے میرے لیے آیا ہوا تھا۔
اب میرے چھ بچے ہیں اور ساتویں کی خشخبری جلد ملنے والی ھے اور میں ہنسی خوشی زندگی گزار رہا ہوں لیکن میرے دایْیں گال پہ آج بھی اس حسینہ کی انگلیوں کے نشانات موجود ہیں۔
ایک محترمہ کہتی ہیں کہ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﯿﺎﮞ ﺍﻭﻭﺭ ﺳﻤﺎﺭﭦ ﺑﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﻨﮕﺮ ﭘﺮﻧﭧ ﺳﻨﺴﺮ ﻭﺍﻻ ﻓﻮﻥ ﺧﺮﯾﺪ ﻟﯿﺎ۔ ﺍﺳﯽ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ Twin App ﺍﻧﺴﭩﺎﻝ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ "ﺍﯾﺸﺎﻝ ﻋﻠﯽ" ﻭﺍﻟﯽ ﺁﺋﯽ ﮈﯼ ﺳﮯ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺍﻧﺒﺎﮐﺲ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔
Aamir |
ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﯾﺎ۔ ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺁﻓﺲ ﭨﺎﺋﻢ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﺏ ﺁﯾﺎ "ﻭﻋﻠﯿﮑﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ"۔
ﻣﯿﮟ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺴﺞ ﮐﯿﺎ
"ﺳﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﯿﺸﻦ ﮈﯾﺰﺍﺋﻨﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺳﭩﺮﺯ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺎﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻞ ﺭﮨﯽ"
ﺍﭘﻨﯽ ﺳﯿﻔﭩﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﻟﮕﮯ "ﺁﭖ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﮐﺲ ﻧﮯ ﮔﺎﺋﯿﮉ ﮐﯿﺎ؟"
ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﻓﺘﺮ ﮐﮯ ﻋﻤﻠﮯ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﮑﮭﺎ "ﺁﭖ ﮐﯽ ﮐﻤﭙﯿﻮﭨﺮ ﺁﭘﺮﯾﭩﺮ ﻋﺎﻟﯿﮧ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﺴﭩﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﮯ۔"
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﺎﻥ ﺑﻮﺟﮫ ﮐﺮ "ﭼﮭﻮﭨﯽ" ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ "ﺁﭖ ﺻﺒﺢ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﯽ ﻭﯼ ﻣﯿﺮﮮ ﺁﻓﺲ ﮈﺭﺍﭖ ﮐﺮ ﺩﯾﺠﯿﮯ"
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭼﺎﻝ ﭼﻠﯽ "ﺍﭼﮭﺎ ﮐﻞ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺑﮭﯿﺠﻮﮞ ﮔﯽ"
ﺍﯾﮏ ﺳﯿﮑﻨﮉ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﺏ ﺁﯾﺎ "ﻧﮩﯿﮟ ﺁﭖ ﺧﻮﺩ ﺁﺋﯿﮟ"
ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ
"ﺍﺑﮭﯽ ﻓﺮﯼ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻭﯾﺴﮯ" ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﺘﮧ ﭘﮭﯿﻨﮑﺎ۔
"ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﯼ ﮨﻮﮞ۔ ﺁ ﺟﺎﺋﯿﮟ"
ﺑﮯ ﺗﺎﺑﯽ ﻇﺎﮨﺮ ﺗﮭﯽ۔
"ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﻠﺒﺮﮒ ﺳﮯ ﺁﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺩﯾﺮ ﻟﮕﮯ ﮔﯽ۔ ﺗﺐ ﺗﮏ ﺁﻓﺲ ﭨﺎﺋﻢ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ"
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﮭﯿﺮﺍ ﺗﻨﮓ ﮐﯿﺎ۔
"ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ"
ﮨﺎﺋﮯ ۔۔۔ ﮐﺘﻨﮯ ﮐﻤﯿﻨﮯ ﮨﯿﮟ۔۔۔
"ﮔﻠﻮﺭﯾﺎ ﺟﯿﻨﺰ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭘﺎﺱ ﮨﮯ"
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻣﮩﻨﮕﮯ ﮐﯿﻔﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﯿﺎ۔
"ﺍﺭﮮ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﯿﭩﻨﮓ ﻭﮨﯿﮟ ﭘﺮ ﮨﮯ۔ ﺁﭖ ﮐﺘﻨﯽ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﮩﻨﭻ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ؟"
ﮨﺎﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺮ ﺟﺎﻭﺍﮞ۔
"ﺟﯽ ﺳﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺱ ﻣﻨﭧ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﻮﮞ" ﻣﯿﮟ ﭼﻮﺗﮭﯽ ﺑﺎﺭ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ۔
"ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﯿﻞ ﻧﻤﺒﺮ ﺳﯿﻨﮉ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ"
میرے ﻣﯿﺎﮞ ﺟﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮔﮭﯿﺮﺍ ﺗﻨﮓ ﮐﯿﺎ۔
"ﺟﯽ ﺳﺮ"
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ "ﮈﺑﻞ ﻧﻤﺒﺮ" ﻭﺍﻻ ﻧﻤﺒﺮ ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯾﺎ۔ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﻻﻟﮧ ﺯﺍﺭ ﺳﮯ ﺩﺱ ﻣﻨﭧ ﻣﯿﮟ ﮐﺲ ﺟﮩﺎﺯ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮔﻠﻮﺭﯾﺎ ﺟﯿﻨﺰ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ۔ ﮐﻤﺎﻝ ﮨﮯ۔ ﭨﮭﯿﮏ ﺩﺱ ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﺲ ﺍﯾﻢ ﺍﯾﺲ ﺍﻟﺮﭦ ﻣﻼ "ﮐﮩﺎﮞ ﮨﯿﮟ؟"
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮯ ﻓﻠﯿﭧ ﭘﺮ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﻭﺳﺖ ﻣﺎﺭﯾﮧ ﮐﺎ ﺑﺮﻗﻊ ﺍﻭﺭ ﻧﻘﺎﺏ ﭘﮩﻨﮯ، ﺍﺳﯽ ﺳﮯ ﻟﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﺁﺋﯽ ﺷﯿﮉ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺍﺳﯽ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﻋﯿﻨﮏ ﭘﮩﻦ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭨﺸﻮﺯ ﻟﭙﯿﭧ ﮐﺮ ﻧﺎﮎ ﮐﯽ ﺷﯿﭗ ﺩﮮ ﮐﺮ ﻧﻘﺎﺏ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ رکھا، ﻧﺎﮎ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﮐﺮﮐﮯ ﻻﺋﻨﺮ ﺳﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻻﻣﺒﯽ ﮐﺮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮔﻠﻮﺭﯾﺎ ﺟﯿﻨﺰ ﭘﮩﻨﭽﺘﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﺁﺩﮪ ﮔﮭﻨﭩﮧ ﻟﮓ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺁﭨﻮ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﯿﺎﮞ ﺟﯽ ﺳﺘﺮﮦ ﻣﯿﺴﺞ ﮐﺮ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﻣﯿﺴﺞ ﭘﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﯽ۔
"ﮐﯿﺴﯽ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ؟" ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﭘﮩﻼ ﺳﻮﺍﻝ۔
ﮨﺎﺋﮯ ﮐﯿﺎ ﺳﭩﺎﺋﻞ ﺗﮭﺎ۔ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﺳﭩﺎﺋﻞ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﻣﺎﺭﺍ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ۔
"ﺟﯽ ﺳﺮ ﻣﯿﮟ ﭨﮭﯿﮏ" ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﭘﯿﺮﻭﮈﯼ ﮐﯽ ﻣﺎﮨﺮ ﺗﮭﯽ ﺭﺍﻧﯽ ﻣﮑﮭﺮﺟﯽ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻟﯽ۔
"ﮐﯿﺎ ﻟﯿﮟ ﮔﯽ؟"
ﻣﺠﮫ ﺳﮯ تو ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮧ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﻤﯿﻨﮯ۔۔۔ ﺩﻝ ﮨﯽ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﭻ ﻭ ﺗﺎﺏ ﮐﮭﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﻣﯿﮟ۔
"ﮐﺮﯾﻢ ﺑﺮُﻭﻝ"
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﺮﻧﭻ ﭼﻠﺮ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﮐﯽ۔
"ﭨﻮ ﮐﺮﯾﻢ ﺑﺮُﻭﻝ ﻻﺭﺝ" ﻣﯿﺎﮞ ﺟﯽ ﻧﮯ ﻭﯾﭩﺮ ﮐﻮ ﺁﺭﮈﺭ ﮐﯿﺎ۔
ﺣﺪ ﮨﮯ۔۔ ﻣﯿﭩﮭﺎ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﮑﻤﻞ ﭘﺮﮨﯿﺰ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﻓﻞ ﺳﺎﺋﺰ ﺳﺨﺖ ﻣﯿﭩﮭﺎ ﮈﯾﺴﺮﭦ۔۔
ﺍﻧﺪﺭ ﮨﯽ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﺎﻧﭗ ﻟﻮﭦ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ۔ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﺑﺎﮨﺮ ﻟﮯ ﭼﻠﯿﮟ ﺗﺐ ﺑﮩﺎﻧﮧ "ﺍﺱ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﺑﺠﭧ ﭨﺎﺋﭧ ہے" ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﻧﻮﮐﺮﯼ ﺩﯾﻨﮯ ﮔﻠﻮﺭﯾﺎ ﺟﯿﻨﺰ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﮐﺮﯾﻢ ﺑﺮُﻭﻝ۔۔۔ ﻣﺮ ﺟﺎﻧﯿﺎ ﺧﺼﻤﺎﮞ ﻧﻮ ﮐﮭﺎﻧﯿﺎ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﺻﺒﺮ ﮐﺎ ﭘﯿﻤﺎﻧﮧ ﺍﻟﭧ ﮐﺮ ﻧﯿﭽﮯ ﺟﺎ ﮔﺮﺍ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﺮﯾﻢ ﺑﺮُﻭﻝ ﮐﯿﻮﮞ ﭼﮭﻮﮌﻭﮞ۔ ﺟﻮﻧﮩﯽ ﺁﺭﮈﺭ ﺳﺮﻭ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﻘﺎﺏ ﺍﻟﭧ ﺩﯾﺎ۔ ﻣﯿﺎﮞ ﺟﯽ ﭘﺮ ﺳﮑﺘﮧ ﺳﺎ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﭨﻤﺒﻠﺮ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺭﮨﯽ۔ ﻭﮦ ﭼﭗ ﺳﺎﺩﮬﮯ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺭﮨﮯ۔
"ﮔﺎﮌﯼ ﮐﯽ ﭼﺎﺑﯽ ﺩﯾﮟ" ﮐﭗ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﺤﮑﻤﺎﻧﮧ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ۔ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﭼﭗ ﭼﺎﭖ ﭼﺎﺑﯽ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ۔
"ﺁپ آﭨﻮ ﺳﮯ ﺁ ﺟﺎﻧﺎ" ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺑﯽ ﺍﭨﮭﺎﺗﯽ ﮔﻠﻮﺭﯾﺎ ﺟﯿﻨﺰ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﺁﺋﯽ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻟﯿﭧ ﮔﮭﺮ ﺁﺋﮯ اور پھر
ﺁﮔﮯ جو کچھ ہوا وہ ناقابلِ اشاعت ہے۔ 😁
نوسر باز کا قصّہ (عربی ادب سے ماخوذ)
ایک دفعہ ایک چالاک اور دھوکے باز شخص نے کہیں سے ایک گدھا چوری کیا اور اسے فروخت کرنے کے لیے قریبی بازار لے گیا۔ بازار جانے سے پہلے اس نے گدھے کے منہ میں اشرفیاں ٹھونس کر کپڑے سے اچھی طرح بند کر دیا۔
بازار کی پُر ہجوم جگہ پر کھڑے ہوکر اس نے گدھے کے منہ سے کپڑا ہٹا دیا، جیسے ہی کپڑا ہٹا گدھے کے منہ سے اشرفیاں نکل کر زمین پر گرنے لگیں۔ سکّوں کی جھنکار سن کر لوگ متوجہ ہوگئے، اور حیران ہوکر پوچھنے لگے کہ گدھے کے منہ سے سکّے وہ بھی سونے کے! یہ کیا ماجرا ہے؟
دھوکے باز کہنے لگا، بھائیو یہ ایک عجیب و غریب گدھا ہے اور میں اس سے بہت تنگ ہوں، میں جب بھی پریشان یا اداس ہوتا ہوں تو دن میں ایک بار اس کے منہ سے سونے کی اشرفیاں گرنے لگتیں ہیں۔ اب تو میرے گھر میں اشرفیاں رکھنے کی جگہ بھی نہیں بچی، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اسے کوئی ضرورت مند اور جانوروں سے پیار کرنے والا تاجر خرید لے۔ لوگوں نے اشرفیاں گرتی ہوئی اپنی آنکھوں سے دیکھ لی تھیں اور باقی کا قصّہ سن کر ہر کسی کی خواہش یہی تھی کہ یہ گدھا جتنے میں بھی مل جائے سستا ہے۔
ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بولیاں لگاتے ہوئے، آخر کار ایک بڑے تاجر نے خطیر رقم کے عوض اسے خرید لیا۔ فروخت کرنے والے نے رقم اور زمین پر گرے ہوئے سکّے سمیٹے اور گھر چلا گیا۔
جس تاجر نے گدھا خریدا تھا، وہ فخر سے گردن اکڑائے ہوئے چل رہا تھا اور اہلِ قریہ اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے اس کے گھر تک پہنچ گئے۔ سارے لوگ مل کر اداس اور پریشان شکلیں بنا کر گدھے کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ لوگ گھنٹوں بیٹھ کر انتظار کرتے رہے اور بالآخر وہ سچ مچ پریشان ہوگئے۔ اس دوران گدھا جو کب سے بھوکا تھا اس نے خوب چارہ کھایا مگر ایک سکّہ تک نہ گرا۔
آخر وہاں سے کسی دانا کا گزر ہوا۔ اس نے بتایا کہ تمھارے ساتھ دھوکا ہوچکا ہے۔ اس سے پہلے کہ فروخت کرنے والا بھاگ جائے، فوراً اس دھوکے باز کو پکڑو۔ وہ تاجر اور اہلِ قریہ اکٹھے ہو کر جب اس دھوکے باز کے گھر کے باہر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹا کر اس کے متعلق استفسار کیا تو اندر سے اس دھوکے باز کی بیوی نے کہا کہ وہ تو کہیں کام سے دوسرے گاؤں گئے ہوئے ہیں۔ آپ باہر ہی انتظار کریں میں اپنا پالتو کتّا بھیجتی ہوں، یہ جاکر انہیں آپ کے متعلق بتائے گا اور انہیں ہر صورت ساتھ بھی لے کر آئے گا۔ لوگ دل چسپی سے دیکھنے اور سوچنے لگے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کتّا اپنے مالک کو گھر لائے۔
دراصل اس چالاک شخص نے جب دیکھا کہ تمام لوگ اس کے گھر کے باہر جمع ہیں تو اس نے اپنی بیوی کو کتّے والی پٹی پڑھائی۔ گھر میں پہلے سے بندھے ہوئے کتّے کو آزاد کیا اور خود گھر کی پچھلی سمت سے چپکے سے نکل گیا۔ دور جاکر اس نے کتّے کو پکڑ لیا اور اس کے ساتھ واپس گھر کی طرف چل دیا۔
تھوڑی دیر گزری تو لوگوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ وہی شخص جس نے گدھا فروخت کیا تھا، اسی کتّے کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا آرہا تھا۔ اب سارے لوگ یہ بات بھول کر کہ وہاں کیوں آئے ہیں، کتّے کے متعلق پوچھنے لگے کہ یہ تو بڑے کام کا ہے، بتاؤ یہ کتنے کا ہے؟ اسے تو ہر صورت خریدنا ہوگا۔
اس دھوکے باز اور چالاک شخص نے پہلے تو انکار کیا لیکن بعد میں اچھے دام ملنے پر وہ کتّا اسی ہجوم میں سے ایک دوسرے تاجر کو فروخت کر دیا۔ اب لوگ ٹولی کی شکل میں صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ کتّا گھر سے گئے ہوئے شخص کو کیسے واپس لے کر آتا ہے اس تاجر کے ساتھ چلتے گئے۔
تاجر نے گھر جاکر غلام کو کہا کہ تم ساتھ والے گاؤں جاؤ تاکہ کتّا تمھیں ڈھونڈ کر واپس لے آئے۔ غلام جیسے ہی دوسرے گاؤں پہنچا وہاں سے بھاگ نکلا اور کتّا بھی کہیں دور چلا گیا جو واپس نہ آیا۔ جب غلام اور کتّا دونوں واپس نہ آئے تو لوگوں کو پتا چل گیا کہ یہ ایک بار پھر ہمارے ساتھ دھوکا ہوگیا ہے۔
وہ دوبارہ اکٹھے ہوکر جب اسی دھوکے باز کے گھر گئے تو وہ ایک بار پھر گھر کے پچھلے خفیہ دروازے سے بھاگ نکلا، اور اس کی بیوی کہنے لگی وہ ساتھ والے گاؤں کسی کام سے گئے ہوئے ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ آج ہم اس کا گھر کے اندر بیٹھ کر انتظار کریں گے، اور یوں دونوں تاجروں سمیت ارد گرد کے تمام لوگ اس کے گھر میں بیٹھ گئے۔
کافی دیر جب گزر گئی تو وہی دھوکے باز گھر میں داخل ہوا اور وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر چاپلوسی سے کام لیتے ہوئے ان کے سامنے جھک جھک کر آداب بجا لانے لگا اور بیوی سے پوچھنے لگا کہ میرے خاص مہمانوں کی تکریم میں تم نے کیا کیا؟ ان مہمانوں کو کچھ کھانے پینے کو دیا یا بھوکا ہی بٹھایا ہوا ہے؟
وہ لوگ دل ہی دل میں شرمندہ ہونے لگے کہ ہم جسے دھوکے باز سمجھ رہے ہیں وہ تو بڑا سخی اور مہمان نواز بندہ ہے۔ اس کی بیوی نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ان فضول اور فالتو لوگوں کو کون اپنا مہمان بناتا ہے، میں نے تو انہیں پانی تک نہیں پوچھا۔ یہ سن کر وہ شخص غصے میں پاگل ہوگیا اور جیب سے ایک خنجر نکال کر بیوی کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ فوراً لہو بہہ نکلا اور اس کی بیوی لہرا کر نیچے فرش پر گر پڑی۔
وہاں بیٹھے ہوئے لوگ اسے برا بھلا کہنے لگے کہ ہمارے پیسوں کو تو رہنے دو لیکن ہمارے لیے اپنی بیوی کو قتل کرنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ وہ چالاک اور دھوکے باز کہنے لگا، آپ لوگ فکر نہ کرو یہ ہمارا روزانہ کا کام ہے۔ میں اسے غصے میں آکر قتل کر دیتا ہوں تو دوبارہ اس سینگ سے زندہ بھی کر دیتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے اس نے دیوار پر ٹنگے ہوئے کسی جانور کے بڑے سے سینگ کی طرف اشارہ کیا۔ پھر وہ سینگ اتارا اور مری ہوئی بیوی کے پاس بیٹھ کر سینگ کو منہ میں دبا کر سپیروں کی طرح جھوم جھوم کر پھونک مار کر بجانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہی مقتولہ جو کچھ دیر پہلے سب کے سامنے خنجر کے وار سے ہلاک ہوچکی تھی۔ اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ تمام لوگ حیرت زدہ رہ گئے، اور ایک بار پھر وہ سب یہ بات بھول کر کہ یہاں کیوں آئے ہیں، اس سینگ کو خریدنے کے درپے ہوگئے۔
دھوکے باز نے بولی بڑھانے کی خاطر کہنا شروع کردیا کہ یہ طلسماتی سینگ پوری دنیا میں ایک ہی ہے جو صرف میرے پاس ہے اور میں اسے کسی بھی قیمت پر فروخت نہیں کروں گا۔ کرتے کرتے ایک بڑے تاجر نے سب سے زیادہ رقم ادا کرکے وہ سینگ خرید لیا، اور سینگ خرید کر وہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
جس نے سینگ خریدا تھا، کہنے لگا، میں جو اپنی بیوی کی چخ چخ سے تنگ ہوں، آج اگر اس نے لڑائی کی تو مار دوں گا اور رات سکون سے گزار کر صبح سینگ کی مدد سے زندہ کرلوں گا، لیکن درحقیقت اس دھوکے باز نے جب اپنے گھر کے باہر لوگوں کا اکٹھ دوبارہ دیکھا تھا تو فوراً منصوبہ بنا کر اس میں اپنی بیوی کو شامل کرلیا تھا۔ لال رنگ کو ایک تھیلی میں ڈال کر بیوی کے کپڑوں میں چھپا دیا، پھر ایک خنجر لیا جس کے دستہ میں خفیہ خانہ اور ایک بٹن تھا جس کو دبانے سے خنجر کا پھل اپنے دستے میں غائب ہوجاتا تھا۔ اور ایک پرانا بیکار سینگ لے کر دیوار پر ٹانگ دیا اور خود گھر کے خفیہ رستے سے نکل کر تھوڑی دیر روپوش رہ کر واپس آگیا۔ اور پھر بیوی کو زندہ کرنے کا ڈرامہ رچا کر بیکار سینگ فروخت کردیا تھا۔
جس نے سینگ خریدا تو جیسے ہی گھر پہنچا تو اس کی بیوی نے حسبِ معمول لڑائی شروع کر دی۔ اس نے بے فکر ہو کر خنجر نکالا اور بیوی کے پیٹ میں گھونپ دیا، خون نکلا، وہ تڑپی اور ٹھنڈی ہوگئی۔ اس نے اٹھا کر کمرے میں لٹا دیا اور پوری رات ایسے ہی رہنے دیا، صبح اٹھ کر اس نے بہتیرا سینگ کو مختلف طریقوں سے بجایا مگر وہ تو مردہ ہوچکی تھی، دھیرے دھیرے اسے اپنی بیوقوفی کا احساس ہونے لگا، وہ پچھتاوے کے احساس کے ساتھ گھر سے نکلا تو باہر تمام لوگ اس کے منتظر تھے کہ پتا کریں رات کیا بیتی اور سینگ نے کیا کمال دکھایا۔ وہ شخص دکھ اور شرمندگی کو چھپانا چاہتا تھا مگر کچھ لوگوں نے جب اصرار کیا تو اصل بات اگلوا ہی لی۔ اب کی بار انہوں نے پکا ارادہ کر لیا کہ اس نوسر باز کی کسی بات میں نہیں آنا، اور اس کو دیکھتے ہی قابو کرکے ایک بوری میں بند کرکے سمندر برد کر دینا ہے۔
سب نے اس پر اتفاق کیا، ایک بار پھر وہ لوگ اکٹھے ہو کر اس دھوکے باز کے گھر پہنچے اور اندر جاکر اسے قابو کرلیا، بڑی سی بوری میں ڈال کر سمندر کی طرف چل دیے۔
سمندر وہاں سے کافی دور تھا۔ بوری میں بند دھوکے باز شخص کو باری باری اٹھاتے ہوئے وہ سب لوگ تھک گئے تھے۔ سمندر سے نصف فاصلے پر پہنچ کر انہوں نے کہا کہ تھوڑی دیر سستا لیتے ہیں، اس کے بعد آرام سے اسے پانی میں پھینک دیں گے۔ وہ لوگ تھکے ہوئے تھے، اس لیے جیسے ہی آرام کرنے کے لیے رکے تو انہیں نیند نے آ لیا اور وہ بے فکر ہو کر سو گئے۔ بوری میں بند شخص نے بھوک اور پیاس سے بے حال ہو کر چیخنا چلانا شروع کر دیا، مگر وہ تمام لوگ تو خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ اسی اثناء میں وہاں سے ایک چرواہے کا گزر ہوا اس نے دیکھا کہ لوگوں کا جمِ غفیر آڑھا ترچھا ہوکر سو رہا ہے، اور ایک طرف پڑی بوری سے چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی ہیں۔
اس نے بھیڑ بکریوں کو ایک طرف کھڑا کیا اور آگے بڑھ کر جب بوری کھولی تو اس نے دیکھا کہ اس کے اندر تو کوئی شخص بند ہے۔ چرواہے نے پوچھا کہ ایک شخص تُو کون ہے، یہ ارد گرد سوئے ہوئے لوگ کون ہیں؟ اور تجھے بوری میں کیوں بند کیا ہوا ہے، یہ ماجرا کیا ہے؟
دھوکے باز نے کہا سنو! یہ تمام لوگ میرے خاندان کے ہیں، یہ میری شادی سمندر پار ایک شہزادی سے زبردستی کرانا چاہتے ہیں، مگر مجھے مال و دولت کی ذرا بھی ہوس نہیں ہے، میں تو اپنی چچا زاد لڑکی سے محبت کرتا ہوں۔ چرواہا اس کی باتیں سن کر بڑا متاثر ہوا، اور کہنے لگا، بتاؤ کیا میں تمھارے کسی کام آسکتا ہوں؟ دھوکے باز کہنے لگا ہاں ہاں کیوں نہیں، تم میری جگہ اس بوری میں آجاؤ، اور جب شہزادی کے سامنے بند بوری کھلے گی تو پھر اس کا تم سے شادی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ چرواہا یہ سن کر خوش ہوگیا اور ہنسی خوشی اس دھوکے باز کی جگہ بوری میں بند ہوکر بیٹھ گیا۔ دھوکے باز نے وہاں سے چرواہے کی بھیڑ بکریوں کو ساتھ لیا اور واپس اپنے گھر آگیا۔
وہ لوگ جب نیند سے بیدار ہوئے تو انہوں نے بوری کو اٹھایا اور چلتے چلتے آخر کار سمندر میں پھینک دیا، اور مطمئن ہوکر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آئے۔
اگلے دن انہوں نے دیکھا کہ دھوکے باز شخص کے گھر کے باہر تین چار سو کی تعداد میں بھیڑ بکریاں بندھی ہوئی ہیں۔ وہ بڑے حیران ہوکر جب وہاں گئے تو دیکھا کہ جس کو سمندر میں پھینک کر آئے تھے وہ تو گھر میں بیٹھا اپنی بیوی سے گپیں لڑا رہا ہے۔ انہوں نے تعجب سے پوچھا کہ، ہم نے تو تمھیں کل سمندر میں پھینکا تھا، اور آج تم صحیح سلامت اپنے گھر میں ہو اور باہر بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بھی ہے؟
وہ دھوکے باز شخص کہنے لگا، جب تم لوگوں نے مجھے سمندر میں پھینکا تو وہاں سے ایک جل پری نمودار ہوئی اور وہ مجھے اپنے ساتھ زیرِ سمندر بنے گھر میں لے گئی، وہاں ہیرے جواہرات اور موتیوں سے بنے ہوئے بے شمار محل اور ہزاروں کی تعداد میں مال مویشی تھے۔
جل پری نے مجھے مہمانوں کی طرح رکھا اور میری خوب خاطر مدارات کی، وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھی اور وہاں کا حاکم بنانا چاہتی تھی، مگر جب میں نے کہا کہ میری پہلے سے ایک بیوی ہے اور میں اپنے گھر جانا چاہتا ہوں تو اس نے کہا کوئی بات نہیں اور اپنی طرف سے بھیڑ بکریوں کا تحفہ دے کر کہنے لگی کہ اگر تمھارے علاقے میں کوئی ایسا ہوا جو یہاں کی جل پریوں سے شادی کر کے یہاں عیش و عشرت کی زندگی گزارنا چاہتا ہو تو اسے یہاں لے آنا۔ یہ بات سننے کی دیر تھی کہ وہاں آئے ہوئے تمام بوڑھے اور جوان کہنے لگے ہم وہاں جانا چاہتے ہیں اور وہاں جاکر حاکم بننا چاہتے ہیں۔
اس دھوکے باز شخص نے کہا کہ تم تو صرف چند افراد ہو اگر اس قصبے کے تمام لوگ بھی وہاں چلے جائیں تو پھر بھی کم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم قصبے کے ہر شخص کو اپنے ساتھ جانے کے لیے راضی کر لیں گے۔ دھوکے باز نے کہا ٹھیک ہے کل صبح کے وقت سمندر کے کنارے ہر شخص اپنے لیے ایک بوری اور ایک رسی لے کر پہنچ جائے، اور وہاں پہنچ کر ہر شخص ایک دوسرے کو بوری میں بند کرنے میں مدد کرے گا۔
اگلے روز صبح کے وقت دھوکے باز شخص نے سب کو بوری میں بند کیا اور اپنی بیوی کی مدد سے تمام بوریوں کو سمندر میں پھینک دیا۔ اس کے بعد وہ بیوقوفوں کے قصبے کا تن تنہا مالک بن گیا۔
(ماخذ: عربی قصص و عبر مِن قدیم زمان، اردو ترجمہ: توقير بُھملہ)
کمال کا لطیفہ ہے جناب
ایک میراثی نے خواب میں دیکھا کہ اسکا ایک کمرہ مٹھائی سے بھرا پڑا ہے اور وہ خواب میں اس سے مٹھائی کھاتا رہا۔
صبح اٹھا تو سوچا اب اتنی مٹھائی کا میں کیا کروں گا ؟ ایسے تو یہ پڑی پڑی خراب ہو جائے گی۔
وہ مسجد میں گیا اور اعلان کروا دیا کہ آج شام سارے گاؤں کی گامے میراثی کے گھر دعوت ہے ۔
ہر بندہ حیران تھا کہ گھر گھر سے روٹیاں مانگنے والا آج پورے گاؤں کی دعوت کر رہا ہے ؟
گاما میراثی گھر آیا تو اسکی بیوی نے کہا ابھی ابھی مسجد میں اعلان ہوا ہے گامے میراثی کے گھر دعوت ہے ؟
گاما میراثی سینہ چوڑا کر کے بولا تو ہاں میں نے ہی اعلان کروایا ہے یہ جو اندر کمرہ مٹھائی کا بھرا پڑا ہے اسکو کون کھائے گا ؟ میں نے سوچا ویسے بھی اتنی مٹھائی خراب ہو جانی ہے چلو گاؤں والوں کی دعوت کر دیتا ہوں ساری عمر انکا کھایا ہے آج ذرا اللہ نے سنی ہے تو انکو بھی کھلا دوں۔
گامے کی بیوی نے جب تفصیل پوچھی تو اس نے اپنا خواب سنایا اسکی بیوی نے سر پکڑ لیا اور کہا جاؤ اندر کمرے میں جا کر دیکھو مٹھائی ھے کہاں ؟
جب وہ اندر گیا تو دیکھا کمرہ خالی تھا ۔
بیچارا بڑا پریشان ہوا بہت سوچ بچار کے بعد بیوی کو کہا چلو کوئی گل نئیں اللہ وارث اے، تم ایسا کرو دریاں وغیرہ بچھا کر گاؤں والوں کے بیٹھنے کا بندوبست کرو میں کچھ بندوبست کر لوں گا۔
جب شام ہوئی اور گاؤں والے آنا شروع ہو گئے۔
گاما ایک تولیہ صابن اور لوٹا لیکر دروازے کے پاس کھڑا ہو گیا۔
جو بھی آتا وہ صابن سے اسکے ہاتھ دھلواتا اور تولیہ پیش کرتا اور کہتا، آؤ جی ملک صاحب، ہتھ دھو لو، آؤ جی رانا صاحب ہتھ دھو لو، آؤ جی چوہدری صاحب ہتھ دھو لو۔
غرض کہ پورے گاؤں کے ہاتھ وغیرہ اچھی طرح دھلوا کر دریوں پہ بٹھا دیا۔
سب لوگ حیران پریشان تھے کہ لگتا ہے گامے نے کوئی VIP بندوبست کیا ہے۔
کچھ دیر بعد گاما حسب عادت ہاتھ جوڑ کر سب کے سامنے کھڑا ہو گیا اور بولا :
"چوہدری صاحب، ملک صاحب، رانا صاحب تے سارے پنڈ والیو... میں اِینے جُوگا اِی ساں"
(مطلب۔۔۔ میرے پاکستانیو۔۔۔ میری اتنی ہی حیثت تھی کہ بس ہاتھ ہی دھلوا سکتا تھا)
😊😊🤪🤪🤪
گامے مراثی کے خواب سے ایک بات یاد آئی
خیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ دن میں بیس سیکنڈ تک بار بار صابن سے ہاتھ دھوئیں
وائرس پھر زور پکڑ رہا ہے۔
باقی اللہ بہتر کرے گا ۔
😂😂✌
0 Comments